أُولَٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ
یہی وارث ہیں۔
اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ ....: ان سات صفات کے مالک فردوس کے وارث ہوں گے۔ انھیں وارث کہنے کی تین وجہیں ہیں، ایک یہ کہ وراثت کسی چیز کے حق دار ہونے کا سب سے مضبوط سبب ہے، یعنی یہ لوگ جنت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ جنت ان کے والد مکرم آدم علیہ السلام کی ملکیت تھی، جب وہ وہاں سے نکلے تو ان کی اولاد جو یہ اعمال کرے گی اپنے والد کی جائداد کی وارث ہو گی۔ تیسری وجہ حدیث میں آئی ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا لَهُ مَنْزِلَانِ، مَنْزِلٌ فِي الْجَنَّةِ، وَ مَنْزِلٌ فِي النَّارِ، فَإِذَا مَاتَ، فَدَخَلَ النَّارَ، وَرِثَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنْزِلَهُ، فَذٰلِكَ قَوْلُهُ تَعَالٰی: ﴿ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ ﴾ )) [ ابن ماجہ، الزھد، باب صفۃ الجنۃ : ۴۳۴۱۔ صححہ الألباني في سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۲۲۷۹ ] ’’تم میں سے ہر ایک کے لیے دو گھر ہیں، ایک گھر جنت میں اور ایک گھر آگ میں۔ پھر اگر کوئی فوت ہو جائے اور آگ میں چلا جائے تو جنت والے اس کے گھر کے وارث بن جاتے ہیں، سو یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا : ﴿ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ﴾۔“ ’’ الْفِرْدَوْسَ ‘‘ لغت میں وسیع باغ کو کہتے ہیں، جس میں کئی قسم کے باغات ہوں، جن میں ہر طرح کے پھل دار درخت خصوصاً انگور اور خوشبو دار پھول کثرت سے ہوں۔ قرآن میں مذکور فردوس کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰهَ فَاسْأَلُوْهُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَ أَعْلَی الْجَنَّةِ، أُرَاهُ قَالَ: وَ فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَ مِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ)) [بخاري، الجہاد والسیر، باب درجات المجاہدین....: ۲۷۹۰ ] ’’جب تم اللہ سے مانگو تو فردوس مانگو، کیونکہ وہ جنت کا اوسط اور جنت کا اعلیٰ (سب سے بلند) حصہ ہے۔‘‘ راوی حدیث کہتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں پھر یوں فرمایا : ’’اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔‘‘ اوسط کا معنی افضل بھی ہے اور سب سے درمیان بھی۔ شاید درمیان سے مراد یہ ہو کہ وہ طول و عرض کے لحاظ سے جنت کے عین درمیان ہے اور بلندی کے لحاظ سے جنت کی سب سے بلند منزل ہے۔