يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۩
اے ایمان والو! رکوع سجدہ کرتے رہو (١) اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ (٢)۔
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا ....: یہ ساری سورت قیامت اور توحید کے حق ہونے کے دلائل اور انکارِ قیامت اور شرک کی تردید اور مذمت کے دلائل پر مشتمل ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو خطاب فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے ہیں کہ ایمان لائے ہو تو اس کا ثبوت بھی پیش کرو۔ سب سے پہلا کام جو ایمان لانے کے بعد سب سے اہم اور ضروری ہے اور کافر و مسلم کی پہچان ہے، وہ نماز ہے، سو نماز ادا کرو۔ ’’نماز ادا کرو‘‘ کے بجائے ’’رکوع کرو اور سجدہ کرو‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے، کیونکہ یہ دونوں آدمی کی عام حالت مثلاً قیام و قعود وغیرہ سے مختلف ہیں اور ان سے اللہ تعالیٰ کے سامنے انتہائی عاجزی کا اظہا رہوتا ہے، اسی لیے کئی متکبر لوگوں نے اس لیے اسلام لانے سے انکار کر دیا کہ انھیں اللہ کے سامنے عاجزی کی آخری حد تک جانا پڑتا ہے۔ 2۔ وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ: ایک خاص عبادت نماز کی تاکید کے بعد رب تعالیٰ کی تمام زبانی، بدنی اور مالی عبادات کا حکم دیا کہ ’’اپنے رب کی عبادت کرو‘‘ اس میں دوسری عبادات کے ساتھ نماز بھی شامل ہے۔ 3۔ وَ افْعَلُوا الْخَيْرَ : عبادت کے حکم کے بعد ہر خیر یعنی ہر اچھے کام کا حکم دیا۔ خیر میں نماز اور تمام عبادات بھی شامل ہیں اور وہ اچھے اعمال بھی کہ نیت ہو تو عبادت ہوتے ہیں، نیت نہ ہو تو عبادت نہیں ہوتے، مثلاً صلہ رحمی، مہمان نوازی، بیماری پرسی اور دوسرے اخلاق عالیہ۔ مقصد یہ ہے کہ خیر کے خاص اور عام کام کرتے رہو، تاکہ وہ تمھاری عادت بن جائیں اور ان کی ادائیگی میں تمھیں کوئی تکلیف محسوس نہ ہو۔ ابوحیان نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے پہلے خاص چیزوں کا ذکر فرمایا پھر عام کا۔‘‘ (بقاعی) 4۔ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ : تاکہ تمھیں دنیا اور آخرت کی کامیابی نصیب ہو۔