يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ
لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہوجائیں، (١) بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے (٢) وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔
1۔ يٰاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ مشرکین کی اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کی کوئی نقلی دلیل ہے نہ عقلی۔ اس سورت کی ابتدا ’’ يٰاَيُّهَا النَّاسُ ‘‘ سے ہوئی تھی، اختتام کے قریب بھی ’’ يٰاَيُّهَا النَّاسُ ‘‘ کے ساتھ خطاب ہے۔ ’’ يٰاَيُّهَا النَّاسُ‘‘سے مراد یہاں مشرکین ہیں، کیونکہ اللہ کے سوا دوسروں کو وہی پکارتے ہیں، سب لوگ ایسا نہیں کرتے۔ یا سب لوگوں ہی کو خطاب ہے، جیسے کسی قبیلے کا ایک آدمی کوئی کام کرے تو کہہ دیا جاتا ہے، قبیلے والو! تم نے یہ کام کیا ہے۔ (روح المعانی) فرمایا، لوگو! ایک مثال بیان کی گئی ہے، اسے کان لگا کر سنو۔ یہاں مثال بیان کرنے والے کا ذکر نہیں فرمایا، تاکہ پوری طرح توجہ مثال کی طرف رہے جو اصل مقصود ہے، بیان کرنے والے کا ذکر مقصود نہیں۔ (بقاعی) 2۔ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا....: اللہ کے سوا تم جن کو بھی پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کریں گے، خواہ وہ سب اس کام کے لیے جمع ہو جائیں۔ مثال میں مستقبل میں حرف ’’ لَنْ ‘‘ کی تاکید کے ساتھ ایک مکھی پیدا کرنے کی نفی فرمائی ہے، یعنی نہ وہ اس سے پہلے یہ کام کر سکے، نہ اب کر رہے ہیں اور نہ آئندہ ایسا کریں گے۔ اللہ کی ایک چھوٹی سی مخلوق پیدا کرنا، جو لوگوں کی نگاہ میں بالکل حقیر ہے، جب تمھارے داتاؤں، حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کے اختیار میں نہیں تو وہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی بے شمار عظیم الشان مخلوقات کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( قَالَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ كَخَلْقِيْ فَلْيَخْلُقُوْا ذَرَّةً أَوْ لِيَخْلُقُوْا حَبَّةً أَوْ شَعِيْرَةً )) [ بخاري، التوحید، باب قول اللہ تعالٰی : ﴿واللہ خلقکم وما تعملون ﴾.... : ۷۵۵۹۔ مسلم : ۲۱۱۱، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو میرے پیدا کرنے کی طرح پیدا کرنے چلا ہے؟ سو وہ ایک ذرہ پیدا کریں، یا ایک دانہ یا ایک جو پیدا کریں۔‘‘ 3۔ بعض لوگ جو فوت شدہ بزرگوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارتے ہیں وہ ’’مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ‘‘سے مراد صرف بت لیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انبیاء و اولیاء ’’ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ‘‘ نہیں۔ اس پر خود بخود سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ ’’ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ‘‘ (اللہ کے سوا نہیں) تو پھر وہ خود خدا ٹھہرے۔ اگر تمھارا یہ عقیدہ ہے تو اس کائنات میں تم سے بڑا کافر کوئی نہیں کہ تم نے اللہ کی پیدا کردہ مخلوق کو رب بنا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء ہوں، اولیاء ہوں یا فرشتے سب اللہ کی مخلوق ہیں اور ’’ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ‘‘ ہیں، خود اللہ نہیں۔ دلیل اس کی یہی آیت ہے کہ صرف بت ہی نہیں تمام زندہ یا فوت شدہ انبیاء و اولیاء اور تمھارے بنائے ہوئے مشکل کشا، داتا اور دستگیر جمع ہو کر بھی ایک مکھی نہیں بنا سکتے۔ اگر کوئی بنا سکتا ہے یا کسی نے بنائی ہے تو اس کا نام لو۔ اللہ تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا : ﴿ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَ الْبَصِيْرُ اَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمٰتُ وَ النُّوْرُاَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ هُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ﴾ [ الرعد : ۱۶ ] ’’کہہ دے کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوتے ہیں؟ یا کیا اندھیرے اور روشنی برابر ہوتے ہیں؟ یا انھوں نے اللہ کے لیے کچھ شریک بنا لیے ہیں جنھوں نے اس کے پیدا کرنے کی طرح پیدا کیا ہے، تو پیدائش ان پر گڈمڈ ہوگئی ہے؟ کہہ دے اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی ایک ہے، نہایت زبردست ہے۔‘‘ ’’ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ‘‘ کی مزید وضاحت کے لیے سورۂ نحل (۲۰، ۲۱) ملاحظہ فرمائیں۔ 4۔ وَ اِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْـًٔا لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ : یہ’’مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ‘‘ کی بے بسی کی ایک اور مثال ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اس سے ہر گز چھڑا نہیں پائیں گے۔ اکثر مفسرین لکھتے ہیں کہ اس سے مراد بت ہیں جن پر ان کو پوجنے والے زعفران اور شہد وغیرہ لگاتے ہیں، یا ان کے سامنے کھانے کی اشیاء لا کر رکھتے ہیں، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کی قوم کرتی تھی۔ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے جائے تو وہ اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ یہ تفسیر بھی ٹھیک ہے، مگر اللہ کے سوا وہ سب ہستیاں بھی اس میں شامل ہیں جنھیں پکارا جاتا ہے، اگر نہ مانو تو اس ہستی کا نام لو جس نے مکھی سے چھینی ہوئی چیز چھڑائی ہو۔ مفسر آلوسی نے فرمایا : ’’وَالْآيَةُ وَ إِنْ كَانَتْ نَازِلَةً فِي الْأَصْنَامِ....إِلَّا أَنَّ الْحُكْمَ عَامٌّ لِسَائِرِ الْمَعْبُوْدَاتِ الْبَاطِلَةِ ‘‘ ’’آیت اگرچہ بتوں کے بارے میں اتری ہے.... مگر اس کا حکم تمام باطل معبودوں کے لیے عام ہے۔‘‘ (روح المعانی) چھیننے میں وجۂ شبہ مکھی کا ڈھیٹ پن ہے۔ اگر یہ ڈھیٹ پن شیر میں ہوتا تو شاید ہی کوئی اس سے بچتا مگر یہ اللہ کی حکمت ہے کہ شیر کی قوت کے ساتھ لوگوں سے دور رہنا رکھ دیا اور مکھی کے ضعف کے ساتھ ڈھیٹ پن رکھ دیا۔ (بقاعی) 5۔ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ : اس بات سے کہ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی سے چھینی ہوئی چیز واپس نہیں لے سکتے۔ مکھی کی قوت کی طرف ذہن جا سکتا تھا، اس لیے وضاحت کر دی کہ مکھی بھی کمزور، جس سے چھین کر لے جا رہی ہے وہ بھی کمزور اور جو اسے پوجتے اور پکارتے ہیں وہ بھی کمزور۔ 6۔ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ : نتیجہ اس ساری مثال کا یہ ہے کہ مشرک اللہ تعالیٰ سے بالکل جاہل ہے، تبھی وہ اللہ کا حق کہ صرف اسے پکارا جائے، کسی دوسرے کو دیتا ہے، خواہ کوئی بھی ہو۔ پھر اس سے بڑھ کر بے قدری کیا ہو گی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا حق ان ہسیتوں کو دے دے جو حقیر ترین چیز مکھی بھی نہ پیدا کر سکتے ہیں اور نہ اس سے چھینی ہوئی چیز واپس لے سکتے ہیں۔ 7۔ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ : یہاں سوال پیدا ہوا کہ پھر اس کی قدر کا حق کیا ہے؟ جواب میں فرمایا، بے شک اللہ یقیناً بہت قوت والا ہے۔ جو چیز پیدا کرنا چاہے کر سکتا ہے اور کرتا ہے، جسے فنا کرنا چاہے کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ وہ سب پر غالب ہے اور کوئی اس پر غالب نہیں، جبکہ کسی دوسرے میں نہ یہ قوت ہے اور نہ غلبہ۔ 8۔ مکھی کی حقارت اگر ضرب المثل ہے تو اس کی جرأت بھی بے مثال ہے۔ بڑے بڑے جابر بادشاہ اس کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں، اسے چہرے سے اڑاتے ہیں، یہ پھر آ بیٹھتی ہے، حتیٰ کہ زچ ہو کر بعض اوقات کہہ اٹھتے ہیں کہ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے اسے کیوں پیدا کیا ہے؟ اس پر انھیں یہ سننا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جبار لوگوں کو ذلیل کرنے کے لیے پیدا فرمایا ہے۔