وَهُوَ الَّذِي أَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَكَفُورٌ
اسی نے تمہیں زندگی بخشی، پھر وہی تمہیں مار ڈالے گا پھر وہی تمہیں زندہ کرے گا، بیشک انسان البتہ ناشکرا ہے (١)
1۔ وَ هُوَ الَّذِيْ اَحْيَاكُمْ....: یہ چھٹی نعمت ہے اور پہلے ذکر کی گئی تمام نعمتوں کی اصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں پیدا فرمایا، اگر پیدا ہی نہ کرتا تو دوسری تمام نعمتیں تمھارے کس کام کی تھیں؟ اس بات کو ہر ملحد شخص بھی مانتا ہے کہ ہم پہلے نہیں تھے، بعد میں پیدا ہوئے۔ ’’ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ‘‘ پھر وہ تمھیں موت دے گا، یہ حقیقت بھی ہر شخص تسلیم کرتا ہے۔ ’’ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ‘‘ جو شخص پہلی دونوں باتیں مانتا ہے اسے یہ بھی ماننا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد زندہ بھی کرے گا۔ 2۔ بظاہر ان تینوں میں سے نعمت صرف پہلی دفعہ پیدا کرنا ہے، کیونکہ پھر مارنا اور زندہ کرنا تو محاسبے کے لیے ہے، لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ بھی نعمتیں ہیں، کیونکہ ان دونوں کے بغیر جنت اور دیدار الٰہی کبھی حاصل نہیں ہو سکتے اور جو چیز جنت کی ہمیشہ کی زندگی اور مالک کے دیدار کا ذریعہ ہو اس کے نعمت ہونے میں کیا شک ہے ؟ 3۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ : ’’ لَكَفُوْرٌ ‘‘ ’’كَافِرٌ‘‘ میں مبالغہ ہے اور کفر سے مراد کفر نعمت یعنی نعمتوں کی ناشکری یا ان کا انکار ہے، یعنی ابن آدم ان نعمتوں کی قدر نہیں کرتا جو اوپر کی آیات میں مذکور ہیں، نہ ان کا شکر ادا کرتا ہے، یعنی اس دعوت کو نہیں مانتا جو اس کی طرف سے اس کے رسول پیش کرتے ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا : ﴿ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ ﴾ [إبراہیم : ۳۴ ] ’’اور اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ کر پاؤ گے، بلاشبہ انسان یقیناً بڑا ظالم، بہت ناشکرا ہے۔‘‘