وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ہم نے آپ سے پہلے جس رسول اور نبی کو بھیجا اس کے ساتھ یہ ہوا کہ جب وہ اپنے دل میں کوئی آرزو کرنے لگا شیطان نے اس کی آرزو میں کچھ ملا دیا، پس شیطان کی ملاوٹ کو اللہ تعالیٰ دور کردیتا ہے پھر اپنی باتیں پکی کردیتا ہے (١) اللہ تعالیٰ دانا اور باحکمت ہے۔
1۔ وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِيٍّ....: لغت میں ’’تَمَنّٰي يَتَمَنّٰي تَمَنِّيًا‘‘ کا معنی تمنا، آرزو اور خواہش کرنا بھی ہے اور تلاوت کرنا اور پڑھنا بھی ہے، سورۂ بقرہ کی آیت (۷۸) : ﴿ وَ مِنْهُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّا اَمَانِيَّ ﴾ میں ’’اَمَانِيَّ ‘‘ ’’أُمْنِيَّةٌ‘‘ کی جمع ہے، جس کا معنی آرزو بھی ہے اور تلاوت کرنا بھی۔ پہلے معنی کی رو سے مطلب یہ ہے کہ آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول یا نبی بھیجا شیطان اس کی ہر آرزو اور خواہش کے راستے میں رکاوٹیں ڈالتا رہا۔ ظاہر ہے پیغمبر کی آرزو لوگوں کے ایمان قبول کرنے اور دین حق کے غلبے کے سوا کیا ہو سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے انبیاء و رسل کی ہر کوشش کو شیطان ناکام کرنے کی کوشش کرتا رہا، مگر اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے آنے والی تمام رکاوٹوں کو دور کرکے اپنی آیات کو محکم اور اپنے دین کو غالب کرتا رہا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ هُوَ الَّذِيْ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ ﴾ [ التوبۃ : ۳۳ ] ’’وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا، تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے۔‘‘ دوسرے معنی کی رو سے مطلب یہ ہے کہ آپ سے پہلے بھی رسول یا نبی آیا، جب وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کرتا تو شیطان اس کے سننے میں رکاوٹ ڈالتا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۲۶ ] ’’اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، اس قرآن کو مت سنو اور اس میں شور کرو، تاکہ تم غالب رہو۔‘‘ مگر اللہ تعالیٰ اس کی رکاوٹوں کو دور کرکے اپنی آیات کو محکم کر دیتا۔ یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ پیغمبروں کے آیات کی تلاوت کے وقت شیطان ان آیات کے معانی کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات ڈال دیتا جنھیں اللہ تعالیٰ بعد میں وضاحت کرکے دور کر دیتا، جیسا کہ سورۂ نحل کی آیت (۱۱۵) : ﴿ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ﴾ میں شبہ ڈالا کہ دیکھو اپنا مارا ہوا حلال کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مارے ہوئے کو حرام کہتے ہیں۔ سورۂ انبیاء کی آیت (۹۸) : ﴿ اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ﴾ میں شبہ ڈالا کہ پھر تو مسیح علیہ السلام بھی نعوذ باللہ جہنم میں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کی وضاحت فرما کر شیطان کے ڈالے ہوئے شبہے کو دور فرما دیا اور اپنی آیات کو محکم کر دیا۔ 2۔ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ : یعنی اللہ تعالیٰ ان سب شیاطین کو خوب جانتا ہے جو انبیاء کی تمناؤں کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں، یا انبیاء کے آیات کی تلاوت کے وقت لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات ڈالتے ہیں اور ان شکوک و شبہات کو اور ان کے دفاع کے طریقوں کو بھی خوب جانتا ہے اور وہ کمال حکمت والا بھی ہے جس کے پیش نظر اس نے شیاطین کو مہلت دے رکھی ہے کہ خود بھی گمراہ رہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں۔ 3۔ بعض مفسرین نے اس آیت کے شان نزول میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورۂ نجم کی تلاوت کر رہے تھے، جب آپ آیت (۲۰) : ﴿ وَ مَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى ﴾ پر پہنچے تو لا شعوری کے عالم میں شیطان نے آپ کی زبان پر یہ کلمات جاری کر دیے، یا آپ کے لہجے اور آواز میں پڑھ دیے: ’’ تِلْكَ الْغَرَانِيْقُ الْعُلٰي وَ إِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُرْتَجَي‘‘ ’’یہ عالی مقام دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے۔‘‘ اس پر کفار قریش بہت خوش ہوئے کہ آج ہمارے بتوں کی بھی تعریف ہوئی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت غم لاحق ہوا، چنانچہ سورۂ حج کی یہ آیت اتری اور آپ کو تسلی دی گئی کہ پہلے انبیاء کی وحی میں بھی شیطان اس قسم کی دخل اندازیاں کرتا رہا ہے، مگر شیطان کے یہ حربے کامیاب نہیں ہوتے وغیرہ۔ یہ قصہ ان آیات کے صریح متصادم ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ پیغمبروں کے چاروں طرف زبردست پہرا اس وقت تک رکھتا ہے جب تک وہ اللہ کے پیغامات لوگوں تک نہ پہنچا دیں (اتنے کڑے پہرے میں ممکن ہی نہیں کہ شیطان کسی طرح بھی اثر انداز ہو سکے)۔ دیکھیے سورۂ جن کی آخری آیات ’’عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ‘‘سے آخر سورت تک۔ محقق علماء نے اس قصے کی پر زور تردید کی ہے۔ بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں، یہ قصہ من گھڑت ہے۔ ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ قصہ زنادقہ (ملحد و بے دین لوگوں) نے گھڑا ہے۔ قاضی عیاض نے ’’الشفاء‘‘ میں اس کی تردید کی ہے۔ رازی نے فرمایا کہ یہ قصہ باطل ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تین مرسل روایات کی بنا پر اس واقعے کا کچھ اصل ثابت کرنے اور اس کی توجیہ کی کوشش کی ہے مگر محدث البانی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ ’’نَصْبُ الْمَجَانِيْقِ لِنَسْفِ قِصَّةِ الْغَرَانِيْقِ‘‘ میں مضبوط علمی بحث کے ساتھ اس قصے کا بالکل بے اصل ہونا ثابت کیا ہے اور قدیم و جدید محدثین و فقہاء کا حوالہ دیا ہے، جنھوں نے اس واقعہ کی دلائل کے ساتھ تردید فرمائی۔