قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ
اعلان کر دو کہ لوگو! میں تمہیں کھلم کھلا چوکنا کرنے والا ہی ہوں (١)۔
1۔ قُلْ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّمَا اَنَا لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ لوگ آپ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک جواب تو اپنا قانونِ مہلت ذکر فرمایا، یہ آیت دوسرا جواب ہے۔ فرمایا، ان سے کہہ دیجیے کہ میں تو صرف تمھیں ڈرانے والا ہوں، میرا کام کفر کے برے انجام سے خبردار اور آگاہ کرنا ہے، عذاب جلدی لانا یا دیر سے لانا میرا کام نہیں، یہ مجھے بھیجنے والے کا کام ہے۔ میں صرف پیغام پہنچانے والا ہوں، خود اللہ نہیں ہوں۔ 2۔ يٰاَيُّهَا النَّاسُ : یعنی تمام دنیا کے لوگوں کو پیغام پہنچا دو خواہ کسی قوم یا ملک سے تعلق رکھتے ہوں، خواہ قیامت تک کسی زمانے کے لوگ ہوں۔ دیکھیے سورۂ سبا (۲۸)۔ 3۔ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : یعنی میں تمھیں ڈرانے والا (اور بشارت دینے والا) ہوں، تمھیں کھول کر ہر وہ چیز بتاتا ہوں جو تمھارے لیے نقصان دہ ہے، تاکہ تم اس سے بچ جاؤ اور ہر وہ چیز بتاتا ہوں جو تمھارے فائدے کی ہے، تاکہ تم اسے اختیار کر لو۔ یہاں ’’نَذِيْرٌ ‘‘ کے ساتھ ’’ بَشِيْرٌ ‘‘ بھی ہے مگر الفاظ میں اسے حذف کر دیا گیا ہے، کیونکہ مقام اس عذاب سے ڈرانے کا ہے جسے وہ جلدی مانگ رہے ہیں۔ یہاں ’’ بَشِيْرٌ ‘‘ کو الگ اس لیے ذکر نہیں فرمایا کہ ہر نذیر بشیر بھی ہوتا ہے، کیونکہ اس کی خبردار کر دہ چیزوں سے بچنے کا نتیجہ خوشی کی خبر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ’’ نَذِيْرٌ‘‘ کے ضمن میں ’’ بَشِيْرٌ ‘‘ کے تذکرے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد پہلی آیت میں بشارت ہے اور دوسری میں نذارت۔ (بقاعی)