يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اے ایمان والو جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی نہ شفاعت (١) اور کافر ہی ظالم ہیں۔
1۔ انسان پر سب سے زیادہ مشکل جان و مال کی قربانی ہے اور عموماً شریعت کے احکام کا تعلق ان دونوں سے ہے۔ اس سورت میں پہلے ﴿وَ قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ﴾ [ البقرۃ:۲۴۴] فرما کر جہاد کا حکم دیا اور آیت:﴿مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ.... ﴾ [البقرۃ:۲۴۵ ] سے جہاد کے لیے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی، اس کے بعد طالوت کے قصے کے ساتھ پہلے حکم کی تاکید کی اور اس آیت کے ساتھ دوسرے حکم کی تاکید کے لیے دوبارہ مال خرچ کرنے کا حکم دیا۔ (رازی) 2۔ مقصد یہ کہ انسان دنیاوی اسباب و وسائل کو چھوڑ کر اکیلا ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو گا۔ لہٰذا آخرت میں نجات کے لیے صدقہ و خیرات اور اس جیسے نیک اعمال کو وسیلہ بناؤ۔ قیامت کے دن دنیاوی دوستی، رشتہ داری کا تعلق اور سفارش وغیرہ کوئی چیز کام نہیں آئے گی۔ (ابن کثیر) 3۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کا منکر کافر ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوٰۃ سے قتال کیا، جیسا کہ کفار سے کیا جاتا ہے۔ (قرطبی)