تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
یہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے (١) ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں، اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات عطا فرمائے اور روح القدس سے ان کی تائید کی (٢) اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کے بعد والے اپنے پاس دلیلیں آ جانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی بھڑائی نہ کرتے، لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا، ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ آپس میں نہ لڑتے (٣) لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
1۔ تِلْكَ الرُّسُلُ....: اس سے وہ رسول مراد ہیں جن کا اس سورت میں ذکر آیا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ انبیاء درجات میں مختلف ہیں اور فضیلت میں ایک دوسرے سے زیادہ ہیں، چنانچہ فرمایا:﴿وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ ﴾[بنی إسرائیل:۵۵ ] ’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت بخشی۔‘‘ 2۔ مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ:جیسے موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے:﴿ وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِيْمًا ﴾ [النساء:۱۶۴ ] ’’ اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، خود کلام کرنا۔‘‘ 3۔ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍ:یہ بات اسی آیت میں پہلے بھی گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی، اب پھر فرمایا:’’ان میں سے بعض کو درجات میں بلند کیا‘‘ اس سے ایک خاص شخصیت کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے، جسے سب جانتے ہیں، اس لیے نام لینے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی، جیسا کہ یہ آیت ہے:﴿سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ ﴾ [بنی إسرائیل:۱ ] اس میں بھی اس بندے کا نام بتانے کی ضرورت نہیں پڑی اور وہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ فضیلت دو طرح کی ہے، ایک مجموعی اور کلی فضیلت اور دوسری جزوی فضیلت، یعنی کسی ایک چیز میں دوسروں سے بڑھ کر ہونا، مثلاً یوسف علیہ السلام کہ وہ خود، ان کے والد، دادا اور پردادا نبی تھے، یہ فضیلت کسی اور رسول کو حاصل نہیں، چنانچہ اس لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ”أَكْرَمُ النَّاسِ“ یعنی سب لوگوں سے زیادہ معزز فرمایا۔ [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی:﴿ واتخذ اللّٰہ.... ﴾:۳۳۵۳ ] آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ساٹھ(۶۰) ہاتھ قد عطا کیا اور انھیں اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا، یہ آدم علیہ السلام کی جزوی فضیلت ہے، کلی اور مجموعی طور پر ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں، یہی صحیح عقیدہ ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ فَخْرَ)) ’’میں آدم علیہ السلام کی اولاد کا قیامت کے دن سردار ہوں گا اور کوئی فخر نہیں۔‘‘ [ترمذي، تفسير القرآن، باب ومن سورة بني إسرائيل:۳۱۴۸، و صححه الألباني ] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت کے لیے قرآن مجید ہی کافی ہے۔ دوسرے تمام انبیاء کے معجزات ان کے ساتھ ہی ختم ہو گئے جبکہ قرآن قیامت تک باقی ہے۔ مفسرین بالخصوص رازی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت کو دلائل سے ثابت کیا ہے اور اس سلسلہ میں شبہات کے جواب دیے ہیں، لیکن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بظاہر اس کے خلاف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھے موسیٰ( علیہ السلام ) سے بہتر نہ کہو۔‘‘ [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب وفاۃ موسٰی....:۳۴۰۸ ] اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( لاَ تُفَضِّلُوْا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللّٰهِ)) ’’اللہ کے انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت مت دو۔‘‘ [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی....:۳۴۱۴ ] علماء نے اس کی متعدد توجیہیں کی ہیں، جن میں سے واضح ترین توجیہیں دو ہیں، ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہے کہ میری فضیلت ایسے انداز سے بیان نہ کرو جس سے دوسرے انبیاء کی کسر شان کا پہلو نکلتا ہو، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ مسلمان اور یہودی کے جھگڑے کے موقع پر فرمائے تھے۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ کسی نبی کو ایک ایک چیز میں دوسرے انبیاء سے افضل نہ بتاؤ، کیونکہ جزوی فضیلت کسی بھی نبی کی ہو سکتی ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’اس آیت سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت حاصل ہے، لیکن حدیث میں فضیلت دینے سے جو منع فرمایا ہے اس سے مراد مقابلہ کی صورت میں ہے، یا جزوی فضیلت مراد ہے، لہٰذا کتاب و سنت میں کوئی تعارض نہیں۔‘‘ ( ابن کثیر، فتح القدیر ) 4۔ وَ اٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ....: یہاں ”الْبَيِّنٰتِ“ سے مراد واضح دلائل اور معجزات ہیں، دیکھیے سورۂ آل عمران (۴۹) اور روح القدس سے جبریل علیہ السلام مراد ہیں۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۸۷)۔ 5۔ یعنی انبیاء کے متبعین میں یہ سب دلائل دیکھنے کے بعد ضد و عناد کی وجہ سے اختلاف اور پھر اس اختلاف کی بنا پر آپس کی لڑائی اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت سے ہے۔ یہاں ’’ایسا کیوں ہوا‘‘ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کا جواب ہماری فہم سے بالا ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک حد تک اختیار دیا ہے، پھر اسے بھی اپنے اختیار کے تحت رکھا ہے، اس کی حکمت وہی جانتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ تقدیر اللہ تعالیٰ کا ایک بھید ہے جو ہم سے مخفی رکھا گیا ہے، لہٰذا اسے معلوم کرنے کی کوشش کا کچھ فائدہ نہیں، بلکہ مان لینا چاہیے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ دیکھیے سورۂ انبیاء (۲۳)۔ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ کفر و ایمان میں لوگوں کا اختلاف تو پہلے ہی سے چلا آ رہا ہے، کوئی نبی ایسا نہیں کہ جس کی ساری امت ایمان لے آئی ہو، لہٰذا آپ ان کے انکار سے رنجیدہ نہ ہوں۔