سورة الأنبياء - آیت 98

إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو (١)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ : یعنی اس وقت ان کے اعتراف جرم اور توبہ کا انھیں کچھ فائدہ نہ ہو گا (سورۂ مومن : ۸۵) بلکہ کہا جائے گا کہ تم اور جن چیزوں کی تم عبادت کرتے تھے، سب جہنم کا ایندھن ہو۔ اس میں ان کے بت بھی شامل ہیں اور وہ تمام انسان یا جن بھی جو اپنی عبادت کروا کر خوش ہوتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو جہنم کا ایندھن قرار دیا۔ بتوں کو آگ میں پھینکنے کا مقصد ان مشرکین کو ذلیل کرنا ہے کہ اپنے خداؤں کا حال دیکھ لو، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ﴾ [ البقرۃ : ۲۴ ]کہ جہنم کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ ’’ مَا ‘‘ کا لفظ عموماً غیر ذوی العقول کے لیے استعمال ہوتا ہے، گویا اپنی عبادت پر خوش ہونے والے انسانوں اور جنوں کو غیر ذوی العقول قرار دیا گیا۔ اگر ’’ مَا ‘‘ کو عاقل و غیر عاقل سب کے لیے عام مانا جائے، جیسا کہ بعض اوقات استعمال ہوتا ہے، تب بھی اللہ کے پیغمبر اور مقبول بندے اس میں شامل نہیں ہوں گے، کیونکہ آیت (۱۰۱) میں تمام مومنوں کے لیے جہنم سے دور رکھے جانے کی بشارت آ رہی ہے۔ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ: ’’لَهَا ‘‘ کا لفظ ’’وٰرِدُوْنَ‘‘سے پہلے آنے سے حصر پید اہو گیا، اس لیے ترجمہ ’’اس میں‘‘ کے بجائے ’’اسی میں‘‘ داخل ہونے والے ہو گا۔ اس جملے کا فائدہ یہ ہے کہ جہنم کا ایندھن بننے کے بعد یہ مت سمجھو کہ موحدین کی طرح اس سے نکل کر جنت میں چلے جاؤ گے، نہیں! بلکہ تم اسی میں داخل رہو گے۔ اس کے علاوہ ’’وٰرِدُوْنَ‘‘ کو بعد میں لانے سے دوسری آیات کے فواصل (آخری حروف) کے ساتھ موافقت بھی ہو گئی۔