سورة الأنبياء - آیت 91

وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور وہ پاک دامن بی بی جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور خود انھیں اور ان کے لڑکے کو تمام جہان کے لئے نشانی بنا دیا (١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الَّتِيْ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا : یعنی اس خاتون کا بھی ذکر کر جس پر ناپاک لوگ (یہودی) تہمتیں لگاتے ہیں، حالانکہ اس نے اپنی شرم گاہ کو حرام سے محفوظ رکھا، بلکہ عبادت میں ایسی مشغول رہی کہ حلال سے بھی محفوظ رکھا، جیسا کہ فرمایا: ﴿ لَمْ يَمْسَسْنِيْ بَشَرٌ ﴾ [ آل عمران : ۴۷ ] ’’حالانکہ کسی بشر نے مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی نیک شہرت کے اظہار کے لیے اس کا نام نہیں لیا، کیونکہ سب جانتے ہیں اس سے مراد مریم بنت عمران علیھا السلام ہیں۔ فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا : مراد عیسیٰ علیہ السلام کی روح ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اس کے حکم سے جبریل علیہ السلام نے پھونکی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو عزت و شرف بخشنے کے لیے اسے اپنی روح قرار دیا اور جبریل علیہ السلام کے پھونکنے کو اپنا پھونکنا قرار دیا، جیسے ’’بيت الله‘‘ اور ’’ناقة الله‘‘ میں کعبہ کو اپنا گھر اور صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو اپنی اونٹنی قرار دیا۔ شیخ ثناء اللہ امر تسری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’عیسائی لوگ اس آیت اور اس قسم کی اور آیات سے عموماً دلیل لایا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح (معاذ اللہ) خدا تھا، کیونکہ اس کو ’’روح اللہ‘‘ کہا گیا ہے، مگر وہ قرآن شریف کے محاورے کو غور سے نہیں دیکھتے کہ اس قسم کی اضافات سے مطلب کیا ہوتا ہے؟ سورۂ سجدہ میں عام انسانوں کے لیے بھی یہی اضافت روح کی اللہ کی طرف آئی ہے، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿ وَ بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ (7) ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِيْنٍ (8) ثُمَّ سَوّٰىهُ وَ نَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ ﴾ [ السجدۃ : ۷ تا ۹] ’’(یعنی اللہ نے) انسان کی پیدائش تھوڑی سی مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک حقیر پانی کے خلاصے سے بنائی، پھر اسے درست کیا اور اس میں اپنی ایک روح پھونکی۔‘‘ اس جگہ عام انسانی پیدائش کی ابتدا اور سلسلے کا ذکر ہے۔ پس اگر آیت زیر تفسیر سے مسیح علیہ السلام کی الوہیت (خدا ہونا) ثابت ہوتی ہو تو اس قسم کی آیات سے تمام انسانوں کی الوہیت ثابت ہو گی، پھر اگر مسیح بھی ایسے ہی خدا اور الٰہ تھے جیسے کہ سب انسان ہیں تو خیر اس کے ماننے میں کسی کو کلام نہیں۔ پس آیت موصوفہ کے معنی وہی ہیں جو ہم نے لکھے ہیں (کہ وہ روح مخلوق تھی) (فَافْهَمْ)۔‘‘ وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَا اٰيَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ : مریم اور مسیح علیھما السلام کا جہانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانی ہونا سورۂ آل عمران (۳۶ تا ۶۳)، نساء (۱۵۶ تا ۱۵۹، ۱۷۱) اور مائدہ (۴۶، ۱۱۰ تا ۱۲۰) میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔