وَمِنَ الشَّيَاطِينِ مَن يَغُوصُونَ لَهُ وَيَعْمَلُونَ عَمَلًا دُونَ ذَٰلِكَ ۖ وَكُنَّا لَهُمْ حَافِظِينَ
اسی طرح سے بہت سے شیاطین بھی ہم نے اس کے تابع کئے تھے جو اس کے فرمان سے غوتے لگاتے تھے اور اس کے سوا بھی بہت سے کام کرتے تھے، (١) ان کے نگہبان ہم ہی تھے (٢)
1۔ وَ مِنَ الشَّيٰطِيْنِ مَنْ يَّغُوْصُوْنَ لَهٗ : اللہ تعالیٰ نے ہوا کے علاوہ کئی شیطان جن بھی سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیے۔ گویا عناصر اربعہ میں سے ہوا کے علاوہ آگ سے بنی ہوئی کچھ مخلوق بھی ان کے تابع فرمان کر دی گئی، پھر اس مخلوق کے ذریعے سے غوطہ خوری کے ساتھ بہت سے سمندری منافع حاصل کرنے کی استطاعت بخشی اور انھی کے ذریعے سے مٹی اور اس سے نکلنے والے پتھر وغیرہ سے ہر وہ چیز بنانا ان کی دسترس میں کر دیا جو وہ بنانا چاہتے تھے۔ گویا تسخیر عناصر کی عجیب نعمت انھیں عطا فرمائی گئی۔ (بقاعی) بعض منحرف مفسرین کا کہنا ہے کہ شیاطین کا لفظ جن و انس دونوں پر آ جاتا ہے، جیسا کہ سورۂ انعام (۱۱۲) میں ’’ شَيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ ‘‘ کا ذکر ہے، اس لیے دراصل یہ سرکش اور قوی قسم کے دیہاتی لوگ تھے، جن سے سلیمان علیہ السلام غوطہ خوری اور عمارات کی تعمیر کا کام لیتے تھے۔ مگر سورۂ سبا میں صراحت ہے: ﴿ وَ مِنَ الْجِنِّ مَنْ يَّعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖ وَ مَنْ يَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيْرِ (12) يَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا يَشَآءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَ تَمَاثِيْلَ وَ جِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَ قُدُوْرٍ رّٰسِيٰتٍ اِعْمَلُوْا اٰلَ دَاؤدَ شُكْرًا وَ قَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ ﴾ [ سبا : ۱۲، ۱۳ ] ’’اور جنوں میں سے کچھ وہ تھے جو اس کے سامنے اس کے رب کے اذن سے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے کجی کرتا ہم اسے بھڑکتی آگ کا کچھ عذاب چکھاتے تھے۔ وہ اس کے لیے بناتے تھے جو وہ چاہتا تھا، بڑی بڑی عمارتیں، مجسّمے اور حوضوں جیسے لگن اور ایک جگہ جمی ہوئی دیگیں۔ اے داؤد کے گھر والو! شکر ادا کرنے کے لیے عمل کرو۔ اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے پورے شکر گزار ہیں۔‘‘ سورۂ سبا (۱۴) ہی میں ذکر ہے کہ ان جنوں کے متعلق بعض لوگوں کا عقیدہ تھا کہ وہ غیب دان ہیں مگر جنوں کو سلیمان علیہ السلام کی وفات کا علم اس وقت تک نہ ہوا جب تک دیمک نے ان کی لاٹھی کو کھا نہیں لیا، پھر جب سلیمان علیہ السلام گرے تو جنوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلیل عذاب (عمارتیں وغیرہ بنانے کے کام) میں نہ رہتے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے غوطہ خوری اور دوسرے دشوار کاموں کے لیے جنوں میں سے کچھ شیاطین کو سلیمان علیہ السلام کے تابع کیا تھا، ورنہ دیہاتی سرکش اور قوی انسان تو سلیمان علیہ السلام سے پہلے بھی عمارتیں بناتے تھے اور اب بھی بناتے ہیں، پھر سلیمان علیہ السلام کی وہ بے مثال سلطنت کیا ہوئی جس جیسی سلطنت ان کے بعد کسی کے لائق ہی نہیں ہے۔ 2۔ وَ يَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ : اس کی تفصیل کچھ پچھلے فائدے میں گزری ہے، کچھ سورۂ سبا (۱۲ تا ۱۴) میں آئے گی۔ 3۔ وَ كُنَّا لَهُمْ حٰفِظِيْنَ: یعنی اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی قدرت سے سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا اور خود ان کی حفاظت فرمائی کہ نہ وہ بھاگ سکتے تھے، نہ ان کی نافرمانی کر سکتے تھے، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتے تھے اور نہ کوئی چیز یا کوئی کام خراب کر سکتے تھے، کیونکہ جو ان کے حکم سے ذرا بھی سرتابی کرتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے بھڑکتی ہوئی آگ سے سزا دی جاتی، فرمایا: ﴿ وَ مَنْ يَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيْرِ ﴾ [ سبا : ۱۲ ] ’’اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے کجی کرتا ہم اسے بھڑکتی آگ کا کچھ عذاب چکھاتے تھے۔‘‘ اور جو زیادہ ہی سرکشی دکھانے والے تھے انھیں بیڑیوں میں اکٹھے جکڑنے کا بندوبست موجود تھا، فرمایا: ﴿ وَ اٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِي الْاَصْفَادِ ﴾ [ صٓ : ۳۸ ] ’’اور کچھ اوروں کو بھی (تابع کر دیا) جو بیڑیوں میں اکٹھے جکڑے ہوئے تھے۔‘‘ ظاہر ہے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا، ورنہ انسان کی کیا بساط کہ اتنی خوفناک قوتوں کو قابو میں رکھ سکے۔ 4۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلیمان علیہ السلام کے تابع جو جن کیے گئے تھے وہ کافر تھے، کیونکہ شیطان کا کفر معلوم ہے۔ اگر وہ مسلمان ہوتے تو خود ہی اللہ کے پیغمبر کے تابع ہو جاتے، پھر ان کی خاص حفاظت کی ضرورت نہ تھی۔ 5۔ سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد اگر کوئی شخص کوئی جن پکڑ لے، جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے زکوٰۃِ فطر کی حفاظت کرتے ہوئے تین دفعہ شیطان کو پکڑا تھا، تو اللہ کی طرف سے اس کے لیے ان کے نقصان سے حفاظت کا کوئی ذمہ نہیں۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سرکش جن کو پکڑ کر چھوڑ دیا تھا، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرماتے ہیں: ((إِنَّ عِفْرِيْتًا مِّنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ عَلَيَّ الْبَارِحَةَ لِيَقْطَعَ عَلَيَّ صَلاَتِيْ فَأَمْكَنَنِيَ اللّٰهُ مِنْهُ فَأَخَذْتُهُ فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبُطَهُ عَلٰی سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ حتَّی تَنْظُرُوْا إِلَيْهِ كُلُّكُمْ، فَذَكَرْتُ دَعْوَةَ أَخِيْ سُلَيْمَانَ: ﴿ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ﴾ [صٓ : ۳۵] فَرَدَدْتُهُ خَاسِئًا )) ’’ایک سرکش جن گزشتہ رات مجھ پر حملہ آور ہوا، تاکہ مجھ پر میری نماز قطع کر دے، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے اسے پکڑ لیا اور ارادہ کیا کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں، تاکہ تم سب اسے دیکھو، پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان ( علیہ السلام ) کی دعا یاد آ گئی: ﴿ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ﴾ ’’اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔‘‘ تو میں نے اسے دفع دور کرتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا۔‘‘ [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی: ﴿ ووھبنا لداؤد سلیمان ....﴾ : ۳۴۲۳ ]