وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ ۖ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ
اور ہم نے انھیں پیشوا بنا دیا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کی رہبری کریں اور ہم نے ان کی طرف نیک کاموں کے کرنے اور نمازوں کے قائم رکھنے اور زکٰوۃ دینے کی وحی (تلقین) کی، اور وہ سب ہمارے عبادت گزار بندے تھے۔
1۔ وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا : یعنی وہ صرف خود ہی ہر لحاظ سے درست اور ہمارے مکمل فرماں بردار نہ تھے، بلکہ وہ اپنی قوم کے پیشوا بھی تھے جو ہماری وحی کے مطابق دوسروں کو بھی حق کی طرف دعوت دیتے تھے۔ معلوم ہوا اصل ہدایت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو اور جو ائمہ اللہ کے حکم کے بغیر حکم دیں تو وہ ہدایت کے امام نہیں، گمراہی کے امام ہیں۔ 2۔ وَ اَوْحَيْنَا اِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ....: یعنی صالحیت اور امامت کے علاوہ ہم نے انھیں اپنی وحی سے بھی سرفراز فرمایا۔ ’’فِعْلَ الْخَيْرٰتِ ‘‘ میں اگرچہ تمام نیک اعمال آ جاتے ہیں مگر اسلام لانے کے بعد اللہ کے حقوق میں سے سب سے اہم عمل نماز اور بندوں کے حقوق میں سے سب سے اہم حق زکوٰۃ کا ذکر خاص طور پر فرمایا، کیونکہ اگر یہ نہیں تو اسلام بھی معتبر نہیں۔ دیکھیے سورۂ توبہ (۵)۔ 3۔ وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَ : ’’ لَنَا ‘‘ پہلے آنے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا، یعنی وہ صرف ہماری عبادت کرنے والے تھے، کسی اور کو ہمارے ساتھ شریک کرنے والے نہ تھے۔