وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِينَ
اور ہم نے اسے اسحاق عطا فرمایا اور یعقوب اس پر مزید (١) اور ہر ایک کو ہم نے صالح بنایا۔
1۔ وَ وَهَبْنَا لَهٗ اِسْحٰقَ وَ يَعْقُوْبَ نَافِلَةً:’’ نَافِلَةً ‘‘ کا معنی زائد عطیہ ہے۔ اس آیت کے دو معنی ہیں، ایک یہ کہ ہم نے اسے اسحاق عطا کیا اور زائد انعام کے طور پر یعقوب (پوتا) عطا کیا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب دونوں زائد انعام کے طور پر عطا کیے۔ مفسر ابن عاشور رحمہ اللہ نے اس کی بہت عمدہ توجیہ فرمائی ہے کہ سورۂ صافات (۱۰۰) میں مذکور ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام ہجرت کے لیے روانہ ہوئے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ﴿ رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ ﴾ ’’اے میرے رب! مجھے (لڑکا) عطا کر جو نیکوں سے ہو۔‘‘ فرمایا: ﴿ فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِيْمٍ ﴾ [ الصافات : ۱۰۱ ] ’’تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار لڑکے کی بشارت دی۔‘‘ یہ بردبار لڑکا اسماعیل علیہ السلام تھے جن کی قربانی کا واقعہ بھی اس مقام پر مذکور ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعا تو اسماعیل علیہ السلام کی ولادت سے قبول ہو گئی تھی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسحاق اور یعقوب علیھما السلام جو عطا کیے تو وہ بغیر دعا اور بغیر امید کے عطا فرمائے، اس لیے دونوں کو زائد عطیہ قرار دیا جو اسماعیل علیہ السلام کے بعد بلاطلب عطا ہوئے۔ دونوں کی خوش خبری بھی اکٹھی دی گئی تھی: ﴿ فَبَشَّرْنٰهَابِاِسْحٰقَ وَ مِنْ وَّرَآءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ ﴾ [ ھود : ۷۱ ] ’’تو ہم نے اس (سارہ) کو اسحاق کی بشارت دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔‘‘ 2۔ وَ كُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِيْنَ : ’’كُلًّا‘‘سے مراد ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیھم السلام ہیں، کیونکہ آخری بات انھی کی ذکر ہوئی ہے۔ لوط علیہ السلام کا ذکر ابراہیم علیہ السلام کی معیت کے طور پر آیا ہے، ان کا الگ ذکر آگے آ رہا ہے۔ [ التحریر والتنویر] ’’صٰلِحِيْنَ ‘‘ اصلاح فساد کی ضد ہے۔ ’’ صَلَحَ ‘‘ (ف، ک) درست ہونا، یعنی ہم نے ان تمام پیغمبروں کو درست عقیدے اور درست عمل والا اپنا مکمل فرماں بردار بنایا۔