ثُمَّ نُكِسُوا عَلَىٰ رُءُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَٰؤُلَاءِ يَنطِقُونَ
پھر اپنے سروں کے بل اوندھے ہوگئے (اور کہنے لگے کہ) یہ تجھے بھی معلوم ہے یہ بولنے چالنے والے نہیں (١)
ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْ....: ’’نَكَسَ‘‘ کا معنی سر کے بل الٹا کرنا ہے، یعنی سر نیچے اور پاؤں اوپر کر دینا، یہ کسی بھی شخص کی بدترین حالت ہے۔ ’’ نُكِسَ الْوَلَدُ ‘‘جب بچے کی ٹانگیں سر سے پہلے باہر آئیں۔ ’’ نُكِسَ فِي الْمَرَضِ ‘‘ تندرست ہو کر پھر بیمار ہو جانا۔ یعنی اگرچہ ابراہیم علیہ السلام کا جواب سنتے ہی ان کے دلوں نے فیصلہ کر دیا کہ ظالم تم خود ہو جو ایسے بے حس اور بے بس بتوں کو معبود بنا بیٹھے ہو جو بول کر یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ ان پر کیا گزری، مگر پھر حق تسلیم کرنے کے بجائے ان پر ضد اور جہالت سوار ہو گئی، جس سے ان کی عقل الٹی ہوگئی اور وہ بغیر کسی حیا کے وہ بات کہنے لگے جس سے ان کی بے وقوفی اور حماقت بالکل واضح ہو رہی تھی۔ ’’ نُكِسُوْا ‘‘ الٹے کر دیے گئے، جیسے کسی چیز نے زبردستی انھیں سر کے بل اوندھا کر دیا ہو، چنانچہ کہنے لگے: ﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰؤُلَآءِ يَنْطِقُوْنَ ﴾ ’’بلاشبہ یقیناً تو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں۔‘‘