سورة الأنبياء - آیت 62

قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کہنے لگے! اے ابراہیم (علیہ السلام) کیا تو نے ہی ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالُوْا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا....: لوگوں کے سوال کے جواب میں کہ اے ابراہیم! کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے ان کے بتوں کی بے بسی و بے چارگی واضح کرنے کے لیے شدید طنز کرتے ہوئے فرمایا : ’’بلکہ یہ کام ان کے اس بڑے نے کیا ہے، سو ان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں۔‘‘ مراد خود ان کے منہ سے اس بات کا اقرار کروانا تھا کہ بت نفع یا نقصان تو دور کی بات ہے بول کر بتا بھی نہیں سکتے کہ ان کا یہ حال زار کون کر گیا ہے۔ ’’فَسْـَٔلُوْهُمْ ‘‘ (سو ان سے پوچھ لو) یعنی صحیح سالم رہنے والے ان کے اس بڑے سے پوچھو کہ اس نے بت کیوں توڑے اور اگر کسی اور نے توڑے ہیں تو اس نے اپنے ساتھیوں کا دفاع کیوں نہیں کیا؟ اور ٹوٹے ہوئے خداؤں سے بھی پوچھو کہ کس نے ان کا یہ حال کیا اور یہ بھی کہ وہ خود یا ان کا بڑا ان کا دفاع کیوں نہیں کر سکے؟ ان کے ایک بڑے بت کو سالم چھوڑنے میں یہ اشارہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بڑا اپنے ساتھ کسی بڑے یا چھوٹے مدمقابل کو برداشت نہیں کرتا تو رب تعالیٰ جس کی صفت ہی ’’اللہ اکبر‘‘ ہے، اپنے ساتھ کسی شریک کو کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ 2۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيْمُ عَلَيْهِ الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ إِلاَّ ثَلاَثَ كَذِبَاتٍ : ثِنْتَيْنِ مِنْهُنَّ فِیْ ذَاتِ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ، قَوْلُهُ: ﴿ اِنِّيْ سَقِيْمٌ ﴾ [الصافات : ۸۹] وَ قَوْلُ: ﴿ بَلْ فَعَلَهٗ كَبِيْرُهُمْ هٰذَا ﴾ [الأنبياء : ۶۳] وَقَالَ بَيْنَا هُوَ ذَاتَ يَوْمٍ وَسَارَةُ إِذْ أَتَي عَلٰي جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ، فَقِيْلَ لَهُ إِنَّ هَاهُنَا رَجُلاً مَعَهُ امْرَأَةٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهَا فَقَالَ مَنْ هٰذِهِ ؟ قَالَ أُخْتِيْ فَأَتَی سَارَةَ فَقَالَ يَا سَارَةُ ! لَيْسَ عَلَی وَجْهِ الْأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَيْرِيْ وَ غَيْرُكِ ، وَإِنَّ هٰذَا سَأَلَنِيْ عَنْكِ فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِيْ فَلاَ تُكَذِّبِيْنِيْ)) [بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی : واتخذ اللہ إبراہیم خلیلا : ۳۳۵۸۔ مسلم : ۲۳۷۱ ] ’’ابراہیم علیہ السلام نے تین دفعہ کے سوا کبھی جھوٹ نہیں کہا، جن میں سے دو اللہ تعالیٰ کی ذات کی خاطر تھے۔ ان کا کہنا: ﴿ اِنِّيْ سَقِيْمٌ ﴾ [ الصافات : ۸۹] ’’میں بیمار ہوں‘‘اور ان کا یہ کہنا: ﴿ بَلْ فَعَلَهٗ كَبِيْرُهُمْ هٰذَا ﴾ [ الأنبیاء : ۶۳ ] ’’بلکہ اسے ان کے اس بڑے نے کیا ہے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اور ایک دفعہ وہ اور (ان کی بیوی) سارہ سفر کر رہے تھے کہ وہ جابر لوگوں میں سے ایک جابر (کی بستی) کے پاس آئے۔ اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک آدمی ہے جس کے ساتھ ایک عورت ہے جو حسین ترین لوگوں سے ہے۔ اس نے ان کی طرف پیغام بھیجا اور اس کے متعلق پوچھا اور کہا : ’’وہ کون ہے ؟ ‘‘کہا : ’’وہ میری بہن ہے۔‘‘ پھر سارہ کے پاس آئے تو کہا، اے سارہ! اس سرزمین پر میرے اور تمھارے سوا کوئی مومن نہیں اور اس نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اسے بتایا ہے کہ تو میری بہن ہے، سو مجھے مت جھٹلانا۔‘‘ بعض لوگوں نے اس حدیث میں ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹوں کے ذکر کی وجہ سے اس حدیث کا انکار ہی کر دیا کہ ایک صدیق نبی جھوٹ کیسے بول سکتا ہے؟ ایک روشن خیال بزرگ نے تو امام بخاری اور تمام ائمۂ حدیث کے ساتھ اس حدیث کو صحیح کہنے والے حضرات کے متعلق یہاں تک لکھ دیا ہے : ’’ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کرکے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے۔‘‘ ان بزرگوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ اس حدیث کے روایت کرنے والے ائمہ کرام یعنی بخاری، محمد بن محبوب، حماد بن زید اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صداقت کو عزیز نہ رکھنے کا نتیجہ کیا ہو گا؟ جب ان کی صداقت ہی عزیر نہ رہی تو امت کے اتفاق کے ساتھ ’’ أَصَحُّ الْكُتُبِ بَعْدَ كِتَابِ اللّٰهِ ‘‘ اور دوسری کتب حدیث کی کیا حیثیت رہ جائے گی اور امت کے پاس باقی کیا رہ جائے گا؟ لطف یہ کہ ان بزرگوں نے ائمۂ حدیث کے صدق پر یہ مہربانی بزعم خود منکرین حدیث کے فتنے کے سد باب کے لیے فرمائی ہے۔ بھلا اس کرم فرمائی کے بعد منکرین حدیث کو کسی مزید محنت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ ایک بزرگ نے یہ تک کہہ دیا کہ ’’نبی کو جھوٹا کہنے سے بہتر ہے کہ اس حدیث کے راویوں کو جھوٹا کہہ دیا جائے۔‘‘ سبحان اللہ! ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا کس نے کہا ہے؟ اور آپ حضرات کی دلیری کا کیا کہنا کہ جن راویوں کو پوری امت بالاتفاق سچا قرار دیتی ہے آپ انھیں جھوٹا قرار دے رہے ہیں۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اچھے خاصے ذہین حضرات صحیح حدیث اور ائمۂ حدیث پر اتنی جرأت کرتے ہوئے یہ بات نہ سمجھ سکے کہ اس حدیث میں ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا نہیں کہا گیا بلکہ اعلیٰ درجے کا سچا (صدیق) ثابت کیا گیا ہے۔ کیونکہ جس شخص نے پوری زندگی میں ان تین باتوں کے سوا کوئی جھوٹ نہ بولا ہو، جو حقیقت میں جھوٹ ہیں ہی نہیں، بلکہ صرف ظاہر میں جھوٹ ہیں، وہ کس قدر سچا ہو گا۔ بلاغت میں اسے ’’تَأْكِيْدُ الْمَدْحِ بِمَا يَشْبَهُ الذَّمَّ‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی ایسی تعریف جو بظاہر مذمت ہو، جیسا کہ ایک شاعر نے کہا ہے : وَلَا عَيْبَ فِيْهِمْ غَيْرَ أَنَّ سُيُوْفَهُمْ بِهِنَّ فُلُوْلٌ مِنْ قِرَاعِ الْكَتَائِبِ ’’یعنی ان میں اس کے سوا کوئی عیب نہیں کہ ان کی تلواروں میں لشکروں کو کھٹکھٹانے کی وجہ سے دندانے پڑے ہوئے ہیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ دشمنوں کے مقابلے کی وجہ سے تلواروں میں دندانے پڑ جانا کوئی عیب نہیں، تو جن کا عیب یہ ہے ان کی خوبیوں کا حال کیا ہو گا۔ اب آپ ان تینوں واقعات پر غور کریں۔ وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ اے ابراہیم! کیا ہمارے معبودوں کے ساتھ تو نے یہ کام کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں، بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کام کیا ہے۔ ’’بلکہ‘‘ کا معنی یہی ہے کہ میں نے نہیں کیا، حالانکہ ابراہیم کو خوب معلوم تھا کہ انھوں نے ہی یہ کام کیا ہے۔ یہ بظاہر صاف جھوٹ ہے مگر حقیقت میں یہ ایک تدبیر تھی جس کے ذریعے سے وہ ان کے منہ سے اقرار کروانا چاہتے تھے کہ بت بول نہیں سکتے، نفع نقصان کا مالک ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مشرکین بھی ابراہیم علیہ السلام کے مقصد کو سمجھ رہے تھے اور ان کے پاس یہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ بت بولتے نہیں۔ چنانچہ انھوں نے اس کا اقرار کیا۔ اب جس شخص کا جھوٹ دشمنوں کے مونہوں سے کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کا اقرار کروا لے کہ اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں کچھ نہیں، اس شخص کے صدیق ہونے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے۔اسی طرح فرمایا: ﴿ اِنِّيْ سَقِيْمٌ ﴾ [ الصافات : ۸۹ ] کہ میں بیمار ہوں، وہ سمجھے کہ اتنے بیمار ہیں کہ ساتھ نہیں جا سکتے، حالانکہ جو شخص اتنا بیمار ہو وہ پتھروں وغیرہ کے اتنے مجسموں کا ستیا ناس کیسے کر سکتا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام کے ذہن میں کفر و شرک سے نفرت کی وجہ سے پیدا ہونے والی تکلیف یا کوئی بیماری تھی، اسے عربی زبان میں تعریض کہتے ہیں کہ کہنے والا اپنے الفاظ سے کچھ مراد لے اور سننے والے کچھ اور سمجھیں۔ سننے والوں کے لحاظ سے واقعہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس پر کذب کا لفظ بولا جاتا ہے، مگر یہ حقیقت میں جھوٹ نہیں ہوتا، بلکہ جھوٹ سے بچنے کا ایک طریقہ ہے، جیسا کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((إِنَّ فِي الْمَعَارِيْضِ لَمَنْدُوْحَةٌ عَنِ الْكَذِبِ)) [الأدب المفرد : ۸۵۷ ] ’’بے شک معاریض میں کذب سے بچنے کی گنجائش ہے۔‘‘ اسی طرح سارہ علیھا السلام کو بہن کہنا بظاہر واقعہ کے خلاف تھا مگر انھیں بہن کہتے وقت اپنی مراد ابراہیم علیہ السلام نے خود بیان فرما دی جو بالکل درست ہے۔ ان دونوں واقعوں میں ابراہیم علیہ السلام نے تعریض سے کام لیا ہے۔ غور کیجیے وہ حدیث جس میں مذکور ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے ساری زندگی میں ان تین کے سوا کوئی جھوٹ نہیں بولا، ابراہیم علیہ السلام کو سچا ثابت کر رہی ہے یا جھوٹا؟ چلیں مان ہی لیں کہ اس حدیث میں ابراہیم علیہ السلام کا تین دفعہ جھوٹ بولنا واقعی بیان ہوا ہے، پھر بھی اس میں ابراہیم علیہ السلام پر کوئی گناہ لازم نہیں آتا اور نہ ان کا جھوٹا ہونا لازم آتا ہے، کیونکہ وہ حالت جنگ میں تھے اور جنگ میں جھوٹ بولنا جائز ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْحَرْبُ خُدْعَةٌ)) [بخاري، الجھاد والسیر، باب الحرب خدعۃ : ۳۰۲۹ ] ’’جنگ دھوکے کا نام ہے۔‘‘ بتائیے! اس میں ابراہیم علیہ السلام کے صدق پر کیا حرف آتا ہے؟ اوپر مذکور بزرگوں نے بڑے زور شور سے یہ بات کہی ہے کہ سند صحیح ہونا کافی نہیں، متن بھی صحیح ہونا ضروری ہے۔ یہ بات فی الواقع درست ہے اور خود محدثین نے اسے حدیث کی صحت کے لیے شرط قرار دیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری اور دوسرے محدثین کو اس حدیث میں ابراہیم علیہ السلام کی توہین نظر آتی تو وہ کبھی اسے صحیح قرار نہ دیتے۔ افسوس ! ہمارے ان بزرگوں کی طعن تشنیع کا نشانہ محدثین ہی بنتے ہیں، اپنی رائے اور قیاس سے ایک نئی شریعت ایجاد کر لینے والے حضرات کے متعلق ان کے دلوں اور قلموں میں بہت نرم گوشہ ہے۔ [ فَإِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکٰی] بائبل کے حوالے سے ابراہیم علیہ السلام کی عمر ۷۵ سال اور سارہ کی عمر ۶۵ سال نقل کرکے بھی اس حدیث پر اعتراض کیا گیا ہے کہ اس عمر میں عورت میں کیا حسن باقی رہ جاتا ہے جو شاہِ مصر اس پر فریفتہ ہو۔ افسوس! ہمارے یہ حضرات ائمۂ محدثین پر اس قدر خفا ہیں کہ کتاب اللہ کے بعد سب سے صحیح کتاب کی حدیث انھیں غلط نظر آئی اور وہ کتاب جس میں تحریف کی خود اللہ تعالیٰ نے شہادت دی ہے اور جس کی داخلی شہادتیں اس کے بے شمار جھوٹوں کی نشان دہی کر رہی ہیں، وہ انھیں اس قابل نظر آئی کہ انھوں نے اس کے ساتھ صحیح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کر دیا۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ] 3۔ یہاں ایک اشکال باقی رہ جاتا ہے کہ صحیح بخاری میں مذکور حدیثِ شفاعت میں ہے کہ لوگ جب ابراہیم علیہ السلام کے پاس شفاعت کی درخواست لے کر جائیں گے تو وہ اپنے تین کذبات کا ذکر کرکے شفاعت سے عذر کر دیں گے۔ اگر یہ جھوٹ نہیں تو ابراہیم علیہ السلام شفاعت سے معذوری کیوں ظاہر کریں گے؟ اہل علم نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو جو مرتبہ عطا فرمایا تھا ان کے خیال کے مطابق اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ان موقعوں پر بھی تعریض کے بجائے صاف کہتے کہ ہاں، میں نے بت توڑے ہیں اور مشرکین کی عید پر جانے سے بیماری کے عذر کے بجائے صاف لفظوں میں انکار کر دیتے کہ میں نہیں جاتا۔ اسی طرح جبار مصر کے سامنے صاف کہہ دیتے کہ سارہ میری بیوی ہے، پھر جو آزمائش آتی اس پر صبر کرتے، جس طرح دوسری بہت سی آزمائشوں پر انھوں نے صبر کیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں امامت کے رتبے پر سرفراز فرمایا۔ اپنے اس عمل کو اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کے مقابلے میں کمتر سمجھ کر وہ شفاعت سے معذوری ظاہر کریں گے۔ [ أحکام القرآن لابن العربی ] دیکھیے اسی حدیث شفاعت میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام شفاعت سے یہ کہہ کر عذر کر دیں گے کہ لوگوں نے میری پرستش کی، اس لیے مجھے شفاعت کے لیے جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے، حالانکہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔