قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ
بولے ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا جسے ابراہیم (علیہ السلام) کہا جاتا ہے (١)۔
قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًى يَّذْكُرُهُمْ....: بتوں کو توڑنے کا مجرم تلاش کرنے میں انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ جن لوگوں نے وہ تقریر سنی تھی، جو ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد اور قوم کے سامنے کی تھی اور جس میں انھوں نے صاف اعلان کیا تھا کہ اللہ کی قسم! میں ضرور تمھارے بتوں کی خفیہ تدبیر کروں گا، انھوں نے کہا کہ ہم نے ایک جوان کو سنا ہے جو ان (بتوں) کا ذکر کر رہا تھا، اسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔ ان مشرکوں کا ابراہیم علیہ السلام کی تحقیر کا انداز دیکھیے، وہ انھیں ابراہیم نامی ایک غیر معروف جوان بتا رہے ہیں، حالانکہ ابراہیم علیہ السلام جیسی شخصیت گمنام ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ بھلا سورج یا چاند بھی چھپے رہ سکتے ہیں؟ پھر وہ اس عمل کا باعث ان کی جوانی کو قرار دے رہے ہیں، حالانکہ ان جاہلوں کو معلوم ہی نہیں کہ اس جوان کی جوانی دیوانی نہیں بلکہ ایسی ہوش مند ہے جس پر بے شمار پختہ عمروں کی پختہ عمری قربان ہے۔ ’’ يَذْكُرُهُمْ ‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (۳۶)۔