سورة الأنبياء - آیت 58

فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پس اس نے سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہاں صرف بڑے بت کو چھوڑ دیا یہ بھی اس لئے کہ وہ سب اس کی طرف ہی لوٹیں (١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا: ’’ جُذٰذًا ‘‘ ’’جَذَّ يَجُذُّ‘‘ (قطع کرنا اور ریزہ ریزہ کرنا) میں سے ’’فُعَالٌ‘‘ بمعنی مفعول (مَجْذُوْذٌ) ہے، یعنی ریزہ ریزہ، ٹکڑے ٹکڑے۔ اسی کے ہم وزن اور ہم معنی ’’حُطَامٌ‘‘اور ’’فُتَاتٌ‘‘ ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی قوم کے لوگ اپنے خاص جشن کے موقع پر گھروں سے باہر نکلتے اور سارا دن جشن مناتے، چنانچہ انھوں نے ابراہیم علیہ السلام کو بھی اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی مگر انھوں نے بیماری کا عذر کر لیا۔ (صافات : ۸۸ تا ۹۰) ابراہیم علیہ السلام موقع پا کر بت خانے کے اندر داخل ہو گئے، پہلے ان سے کچھ خطاب کیا، جس کا تذکرہ سورۂ صافات میں ہے، جواب نہ پا کر پوری قوت سے انھیں توڑنا شروع کر دیا اور ایک کے سوا سب کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ یہاں اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے سب کو توڑ کر کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا، مگر یہ محض اسرائیلی روایت ہے، قرآن یا حدیث میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ پھر پتھر کے بت توڑنے کے لیے کلہاڑے کے بجائے ہتھوڑا استعمال ہوتا ہے۔ ہاں اگر لکڑی کے بت ہوں تو الگ بات ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے ابراہیم علیہ السلام نے ان بتوں کو کیسے ٹکڑے ٹکڑے کیا اور اس کے لیے صرف ایک ہتھیار استعمال کیا یا جس جس اوزار کی ضرورت تھی سب استعمال فرمائے۔ اِلَّا كَبِيْرًا لَّهُمْ:’’كَبِيْرًا ‘‘ نکرہ ہے، سوائے ان کے ایک بڑے کے۔ معلوم ہوا کہ ان کے بڑے بت کئی تھے، مگر ابراہیم علیہ السلام نے ایک بڑے کے سوا چھوٹے بڑے تمام بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اس کی تائید آئندہ آیت(۶۳) ’’ قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ كَبِيْرُهُمْ ‘‘سے بھی ہوتی ہے کہ ’’یہ کام ان کے اس بڑے نے کیا ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ اس بڑے کے سوا اور بھی بڑے بت تھے جو اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔ (بقاعی) جو لوگ اسے ان کے سب بتوں سے بڑا بت قرار دیتے ہیں قرآن کے الفاظ ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ 3۔ ’’سوائے ان کے ایک بڑے کے‘‘ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں یا ان کے معبودوں کو ’’کبیر‘‘ نہیں فرمایا، ہاں ’’ان کے ہاں کبیر‘‘ فرمایا ہے، کیونکہ وہ اسے کبیر مانتے تھے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کا خط بھیجتے ہوئے لکھا: ((اِلٰی هِرَقْلَ عَظِيْمِ الرُّوْمِ ))دیکھیے ہرقل کو صرف رومیوں کے ہاں عظیم فرمایا ہے، کافر کو مطلقاً عظیم نہیںـ فرمایا۔ (سعدی) لَعَلَّهُمْ اِلَيْهِ يَرْجِعُوْنَ : ان کے ایک بڑے بت کو کچھ نہیں کہا، تاکہ جب وہ سب بتوں کو ٹوٹا ہوا اور اسے صحیح سلامت دیکھیں تو اس سے پوچھیں کہ جناب آپ کے غصے کا باعث کیا ہوا کہ آپ نے ان سب خداؤں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اگر آپ نے یہ کام نہیں کیا تو آپ کے ہوتے ہوئے کوئی ظالم یہ کام کیسے کر گیا؟ ایک معنی اس کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے ایک بڑے کے سوا تمام بت ٹکڑے ٹکڑے کر دیے کہ وہ لوگ جب یہ ماجرا دیکھیں گے تو فوراً ان کا ذہن ابراہیم علیہ السلام ہی کی طرف جائے گا، پھر جب وہ ان سے پوچھیں گے تو انھیں شرک کی تردید کا بہترین موقع مل جائے گا۔