قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَىٰ ذَٰلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ
آپ نے فرمایا نہیں درحقیقت تم سب کا پروردگار تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے جس نے انھیں پیدا کیا ہے، میں تو اپنی بات کا گواہ اور قائل ہوں (١)
1۔ قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ....: ’’ بَلْ ‘‘ (بلکہ) سے پہلے کلام کا کچھ حصہ محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آ رہا ہے، یعنی میں یہ بات مذاق سے نہیں بلکہ پوری سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں کہ یہ مورتیاں اور مجسّمے رب نہیں ہیں بلکہ تمھارا رب صرف وہ ہے جو تمام آسمانوں کا اور زمین کا رب ہے۔’’ رَبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ‘‘ مبتدا اور خبر دونوں کے معرفہ ہونے سے حصر کا معنی پیدا ہو رہا ہے۔ 2۔ وَ اَنَا عَلٰى ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ : یعنی میں یہ بات دلیل سے ثابت کر سکتا ہوں، تمھاری طرح نہیں کہ آبا و اجداد کی تقلید کے سوا میرے پاس کوئی دلیل ہی نہ ہو (کیونکہ شہادت اسی بات کی دی جاتی ہے جس کا انسان کو یقینی علم ہو، جب کہ تقلید اور علم ایک دوسرے کے منافی ہیں)۔ (رازی)