سورة الأنبياء - آیت 26

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۚ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

(مشرک لوگ) کہتے ہیں کہ رحمٰن اولاد والا ہے (غلط ہے) اس کی ذات پاک ہے، بلکہ وہ سب اس کے باعزت بندے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا....: عقلی اور نقلی دلیلوں سے شرک کی تردید کے بعد اب ان لوگوں کا رد کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے صاحبِ اولاد ہونے کے قائل تھے۔ عرب کے بعض مشرکین کا عقیدہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ بعض یہود کا کہنا تھا کہ (نعوذ باللہ) جنات اللہ تعالیٰ کے سسرال ہیں، جن سے فرشتے پیدا ہوتے ہیں، اسی طرح یہود نے عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بتایا۔ نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کو اور بعض مسلمان کہلانے والوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے ذاتی نور کا ٹکڑا قرار دیا اور بعض نے کہا: خدا کے نور سے پیدا ہوئے ہیں پانچوں تن محمد است، علی، فاطمہ، حسین و حسن چونکہ یہ شرک کی بدترین صورت اور اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی گستاخی تھی (دیکھیے مریم : ۸۸ تا ۹۰۔ بقرہ : ۱۱۶۔ نساء : ۱۷۱) اس لیے اللہ تعالیٰ نے کئی طرح سے اس کا رد فرمایا۔ 2۔ سب سے پہلے یہ کہہ کر رد فرمایا کہ ’’ وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا ‘‘ (اور انھوں نے کہا رحمان نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے) یعنی باپ اور اولاد ایک جنس ہوتے ہیں، اب کہاں رحمان کہ جس کی کمال رحمت سے یہ کائنات وجود میں آئی اور مسلسل چل رہی ہے اور جس کے سوا ’’رحمان‘‘ نام کا مصداق تم بھی کسی کو نہیں سمجھتے۔ اگر اس کی اولاد مانو تو والد اور اولاد کے ایک جنس ہونے کی وجہ سے فرشتوں کو اور عزیر و مسیح علیھما السلام کو اور ایک ہی نور سے ہونے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور پنجتن کو اسم رحمان کا مصداق ماننا پڑے گا۔ خود ہی سوچ لو کیا یہ رحمان تھے؟ 3۔ پھر ’’ سُبْحٰنَهٗ ‘‘ کہہ کر رد فرمایا، یعنی جن کمزوریوں کی وجہ سے اولاد کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان سے پاک ہے۔ انسان کو اولاد کی ضرورت اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہوتی ہے، تاکہ وہ مشکل میں اس کی مدد کرے، بڑھاپے میں اس کا سہارا (عصائے پیری) بنے اور مرنے کے بعد اس کی جانشین بنے۔ پھر اولاد کے لیے بیوی کا ہونا لازم ہے، انسان اپنی خواہشِ نفس کی وجہ سے بیوی کا محتاج ہوتا ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۰۱) رحمان ان تمام کمزوریوں سے پاک ہے، اگر اس میں یہ کمزوریاں ہوں تو وہ رحمان نہیں ہو گا، بلکہ خود رحم کے قابل ہو گا، جس طرح تمام انسان، جن، فرشتے اور تمام مخلوقات ہیں۔ پھر وہ نہ رحمان ہو گا اور نہ تمام عیوب اور کمزوریوں سے پاک۔ [سُبْحَانَہُ وَ تَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ] 4۔ پھر ’’ بَلْ عِبَادٌ‘‘ کہہ کر رد فرمایا، یعنی جنھیں یہ لوگ اولاد کہہ رہے ہیں وہ بندے (غلام) ہیں۔ غلام اپنے مالک کی اولاد نہیں ہوتا اور اولاد اپنے باپ کی غلام نہیں ہوتی۔ بندگی اور ولدیت جمع نہیں ہو سکتیں۔ اہلِ علم نے اس آیت سے استدلال فرمایا کہ اگر کسی کا بیٹا غلامی کی حالت میں اس کی ملکیت میں آئے تو آزاد ہو جائے گا، کیونکہ ولدیت اور عبدیت جمع نہیں ہو سکتیں۔ 5۔ ’’مُكْرَمُوْنَ‘‘ کفار نے ان ہستیوں کی عظمت شان کی وجہ سے انھیں اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شبہے کو یہ کہہ کر دور فرمایا کہ ان ہستیوں کی تمام عظمت و رفعت صرف اس لیے ہے کہ انھیں عزت عطا کی گئی ہے۔ اس میں ان کا اپنا کمال کچھ نہیں، جب کہ والد اور اولاد اوصاف میں یکساں اور برابر کا جوڑ ہوتے ہیں۔