سورة الأنبياء - آیت 24

أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً ۖ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ ۖ هَٰذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِي ۗ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ ۖ فَهُم مُّعْرِضُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا ان لوگوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں، ان سے کہہ دو۔ لاؤ اپنی دلیل پیش کرو۔ یہ ہے میرے ساتھ والوں کی کتاب اور مجھ سے اگلوں کی دلیل (١) بات یہ ہے کہ ان میں اکثر لوگ حق کو نہیں جانتے اسی وجہ سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖ اٰلِهَةً: یہ بات شرک کے نہایت قبیح اور باطل ہونے کے بیان کے لیے پھر دہرائی۔ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ: اس سے پہلے شرک کے باطل ہونے کی دو عقلی دلیلیں بیان فرمائیں، ایک ’’ لَوْ كَانَ فِيْهِمَا اٰلِهَةٌ ‘‘ اور دوسری ’’ لَا يُسْـَٔلُ عَمَّا يَفْعَلُ ‘‘ ، اس آیت میں اس کی دو نقلی دلیلیں بیان فرمائیں اور کفار سے مطالبہ فرمایا کہ تم بھی اپنی کوئی عقلی یا نقلی دلیل پیش کرو۔ ظاہر ہے کفار کے پاس شرک کی کوئی عقلی دلیل ہے نہ نقلی، ان کا سرمایہ محض وہم و گمان اور نفس کی خواہشیں ہیں (سورۂ نجم : ۲۳ ، ۲۸۔ یونس : ۶۶) یا آبا و اجداد کی تقلید (زخرف : ۲۱ تا ۲۴) اور دونوں میں سے کوئی بھی دلیل یا برہان نہیں ہے۔ هٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ وَ ذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ: یہ توحید کے حق ہونے اور شرک کے باطل ہونے کی دو نقلی دلیلیں ہیں۔ ’’ مَنْ مَّعِيَ‘‘ (جو میرے ساتھ ہیں) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مسلم مراد ہیں اور ان کے ذکر سے مراد قرآن کریم ہے جو اس امت کے لیے نصیحت ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ لَقَدْ اَنْزَلْنَا اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ﴾ [الأنبیاء : ۱۰ ] ’’بلاشبہ یقیناً ہم نے تمھاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمھارا ذکر (تمھاری نصیحت) ہے، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟‘‘ ’’ وَ ذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ ‘‘ (اور مجھ سے پہلے لوگوں کی نصیحت) سے مراد پہلی امتوں پر نازل ہونے والی کتابیں تورات، انجیل، زبور اور صحف ابراہیم وغیرہ ہیں۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یہ قرآن مجید اور پہلی کتابیں تمھاری دسترس میں ہیں، کسی میں شرک کی کوئی دلیل ہے تو دکھا دو۔ پہلے پچھلے تمام اہل علم کی شہادت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، فرمایا: ﴿ شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ﴾ [ آل عمران : ۱۸ ] ’’اللہ نے اس بات کی شہادت دی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب پر غالب ہے، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ قرآن مجید میں کفار سے شرک کی نقلی دلیل پیش کرنے کا مطالبہ کئی آیات میں آیا ہے۔ دیکھیے سورۂ احقاف (۳) اور زخرف (۴۵)۔ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ الْحَقَّ : لفظ ’’ بَلْ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے سامنے عقلی یا نقلی دلیلیں پیش کرکے یہ امید نہ رکھیں کہ وہ قبول کر لیں گے، کیونکہ یہ جاہل ہیں اور انھیں حق کا علم ہی نہیں۔ ’’ وَالنَّاسُ أَعْدَاءٌ لِمَا جَهِلُوْا ‘‘ (لوگ جس چیز کا علم نہ رکھتے ہوں اس کے دشمن ہوتے ہیں)۔ ’’ اَكْثَرُهُمْ ‘‘ سے معلوم ہوا کہ وہ سب ایسے نہیں بلکہ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حق جانتے ہیں مگر عناد کی وجہ سے تسلیم نہیں کرتے اور کچھ ایسے لوگوں کی طرف بھی اشارہ ہے جن کی طبیعتیں حق جان کر اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو چکی ہوتی ہیں، جیسے عمر بن خطاب اور ان جیسے دیگر اصحاب(رضی اللہ عنہم ) تھے اور ایسے لوگوں کی امید پر ہی داعیان حق کا حوصلہ قائم رہتا ہے۔ فَهُمْ مُّعْرِضُوْنَ: اس میں ان کے جہل کا سبب بیان فرمایا کہ وہ حق معلوم کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور نہ کسی دلیل پر غور کرتے ہیں، جیسے فرمایا: ﴿ وَ كَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْهَا وَ هُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ ﴾ [ یوسف : ۱۰۵ ] ’’اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے گزرتے ہیں اور وہ ان سے بے دھیان ہوتے ہیں۔‘‘