سورة طه - آیت 104

نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کی حقیقت سے ہم باخبر ہیں ان میں سب سے زیادہ اچھی رائے (١) والا کہہ رہا ہوگا کہ تم صرف ایک ہی دن دنیا میں رہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ....: ’’اَمْثَلُ‘‘ بمعنی ’’أَفْضَلُ‘‘ہے۔ ’’ اَلْمَثَالَةُ ‘‘ یعنی ’’اَلْفَضْلُ۔‘‘ ’’ طَرِيْقَةً ‘‘ سب سے اچھے طریقے والا سے مراد یہاں سب سے اچھی رائے والا ہے۔ اسے زیادہ اچھی رائے والا اور عقل مند اس لیے فرمایا کہ اس نے دنیا کے عارضی اور ختم ہونے کو اور آخرت کے ہمیشہ اور باقی رہنے کو دوسروں سے زیادہ سمجھا، اس لیے اس نے کہا کہ دس راتیں کہاں، تم تو ایک دن سے زیادہ دنیا میں نہیں ٹھہرے۔ طبری نے فرمایا کہ قیامت کی ہولناکی انھیں دنیا کا عیش و عشرت ایسا بھلائے گی کہ وہ دنیا میں رہنے کی صحیح مدت بھی نہیں بتا سکیں گے۔ دیکھیے سورۂ مومنون (۱۱۲ تا ۱۱۴) اور روم (۵۵)۔