سورة طه - آیت 87

قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَٰكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِّن زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَٰلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے ساتھ وعدے کے خلاف نہیں کیا (١) بلکہ ہم پر زیورات قوم کے جو بوجھ لاد دیئے گئے تھے، انھیں ہم نے ڈال دیا، اور اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیئے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالُوْا مَا اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا : انھوں نے وعدہ خلافی کا نہایت ہی بودا عذر پیش کیا کہ اس وعدہ خلافی میں ہمارا کوئی اختیار ہی نہ تھا۔ سامری نے ہمیں پھسلایا ہی اس طرح کہ ہم میں نیک و بد کی پہچان ہی نہ رہ گئی۔ کوئی پوچھے کہ سامری نے تم پر کوئی فوج کشی کی تھی یا تلوار تان رکھی تھی کہ تمھارا اختیار ختم ہو گیا تھا؟ قیامت کے دن ہر مجرم اپنے آپ کو بے قصور اور بے اختیار ٹھہرائے گا اور اپنے تمام جرائم کا ذمہ دار شیطان کو ٹھہرائے گا مگر وہ صاف کہہ دے گا کہ میں نے تم پر کوئی فوج کشی نہیں کی تھی، صرف دعوت دی تھی، تم نہ مانتے تو میں تمھارا کیا بگاڑ سکتا تھا۔ دیکھیے سورۂ ابراہیم (۲۲)۔ وَ لٰكِنَّا حُمِّلْنَا اَوْزَارًا....: اس آیت کی تفسیر اکثر مفسرین نے یہ کی ہے کہ بنی اسرائیل نے مصر سے نکلنے سے پہلے فرعون کی قوم کے لوگوں سے ان کے زیورات ادھار مانگ لیے تھے، بعض نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کام انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر کیا تھا۔ اب وہ ان کے لیے بوجھ بن گئے تھے، کیونکہ وہ مال غنیمت کے حکم میں تھے اور پہلی امتوں کے لیے غنیمت حلال نہ تھی۔ چنانچہ ہارون علیہ السلام یا سامری کے کہنے پر کہ ان زیورات کو اپنے پاس رکھنا گناہ ہے، سب زیور ایک گڑھے میں پھینک کر انھیں آگ لگا دی گئی اور سامری نے اس سے فائدہ اٹھا کر اس سونے یا چاندی سے بچھڑا بنا دیا۔ بعض نے یہ لکھا ہے کہ فرعون کی قوم جب غرق ہوئی اور ان کی لاشیں کنارے پر آئیں تو بنی اسرائیل نے ان کے زیور اتار لیے، اس زمانے میں عورتوں کی طرح مرد بھی سونے چاندی کے کنگن اور زیور وغیرہ پہنتے تھے۔ ’’زِيْنَةِ الْقَوْمِ‘‘سے قوم فرعون کے زیور مراد ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ اصرار ہے کہ یہ سلف کی تفسیر ہے اور اس سے انحراف سلف سے انحراف ہے۔ مگر قرآن و حدیث سے یا کسی صحابی سے صحیح سند کے ساتھ اس کی طرف معمولی اشارہ بھی نہیں ملتا کہ ہجرت کے وقت پوری قوم کو، حتیٰ کہ موسیٰ علیہ السلام کو دھوکے سے قوم فرعون کے زیورات حاصل کرنے کی فکر پڑی ہوئی تھی، نہ آیات ہی میں کوئی اشارہ ہے کہ ’’زِيْنَةِ الْقَوْمِ‘‘میں’’ الْقَوْمِ‘‘سے مراد قوم فرعون ہے۔ دراصل یہ بات تورات اور پہلے صحیفوں سے لی گئی ہے، جن میں یہود نے اتنی تحریف کر دی ہے کہ انبیاء پر تہمتیں لگانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ داؤد اور لوط علیھما السلام پر ان کی تہمتیں معروف ہیں۔ اس واقعہ میں بھی انھوں نے ہارون علیہ السلام پر تہمت لگائی ہے کہ بچھڑا بنا کر لوگوں کو اس کی عبادت پر لگانے والے وہ تھے۔ ((نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ھَفَوَاتِھِمْ )) اس کے برعکس قرآن مجید میں دوسرے مقام پر تصریح ہے کہ وہ تمام زیور بنی اسرائیل کے اپنے تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ ﴾ [الأعراف : ۱۴۸ ] ’’اور موسیٰ کی قوم نے اس کے بعد اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا جو ایک جسم تھا، جس کی گائے جیسی آواز تھی۔‘‘ ’’مِنْ حُلِيِّهِمْ ‘‘ (اپنے زیوروں سے) کی تصریح کے باوجود انھیں قومِ فرعون کے زیور قرار دینا عجیب بات ہے۔ اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس زمانے میں نوٹ وغیرہ تو تھے نہیں، نقدی سونے یا چاندی ہی کی صورت میں ہوتی تھی، جسے زیورات کی صورت میں لوگ پہن لیتے یا گھروں میں محفوظ رکھتے، ان کا کافی بوجھ بن جاتاتھا، خصوصاً جب ان کے ساتھ تانبے وغیرہ کی آمیزش اور پہننے کے لیے چمڑے، دھاگے یا لوہے کی زنجیریں وغیرہ بھی ساتھ ہوتیں۔ اس لیے اس سفر میں ذمہ داریاں تقسیم کرتے وقت ہر ایک کے اپنے اپنے بوجھ اٹھانے کے بجائے کچھ لوگوں کے ذمے اسے اٹھانے کی ذمہ داری لگائی گئی۔ ظاہر ہے کہ اتنی اہم ذمہ داری قوم کے سربر آور دہ لوگوں ہی کی ہو سکتی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام بھی انھی لوگوں سے مخاطب تھے، کیونکہ وہ ایک وقت میں ساری قوم کے ہزاروں، یا بقول بعض لاکھوں لوگوں سے تو بات نہیں کر سکتے تھے۔ انھوں نے یہ وجہ بتائی کہ ہم پر لوگوں کے زیوروں کا بوجھ تھا، ہم نے اسے جس قدر ہو سکا ہلکا کرنے کے لیے آگ میں پھینکا کہ زائد چیزیں جل جائیں اور خالص سونے اور چاندی کی اینٹیں بنا لی جائیں اور منزل پر پہنچ کر ہر ایک کو اس کے نام لکھے ہوئے کے مطابق اس کے حصے میں آنے والا خالص چاندی یا سونا دے دیا جائے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر سامری نے اس سے بچھڑے کا مجسمہ بنا دیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے سونے اور چاندی میں یہ وصف رکھا ہے کہ یہ بطور قیمت شروع سے مقرر چلے آ رہے ہیں۔ دینار و درہم بھی ان کے بنتے تھے اور یہی فطری طریقہ تھا جس سے ہر شخص کا مال خود اس کے پاس ہوتا تھا۔ چالاک یہودیوں نے بینک بنا کر لوگوں کا سونا چاندی اپنے پاس جمع کر لیا اور انھیں رسیدیں جاری کر دیں کہ جب چاہو یہ دکھا کر اپنا سونا چاندی لے لو۔ لوگوں نے صرف اتنی سہولت کی خاطر کہ بوجھ نہ اٹھانا پڑے، ان رسیدوں سے لین دین شروع کر دیا، جس نے آگے نوٹوں کی صورت اختیار کر لی۔ اب صرف بوجھ سے بچنے کی خاطر سارا کاروبار یا تو نوٹ پر چلتا ہے یا بینک کے چیکوں پر۔ لوگوں کے پاس کاغذ کے ایک ٹکڑے کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس کاغذ کی حیثیت یہ ہے کہ حکومتیں جب چاہتی ہیں اس کی قیمت کبھی آدھی کم کر دیتی ہیں، کبھی چوتھا حصہ۔ جو شخص ایک کروڑ روپے کے سونے کا مالک تھا، صرف ایک اعلان کے بعد پچاس لاکھ کے وعدے والے کاغذ کے سوا اس کے پاس کچھ نہیں رہتا اور اگر نئے نوٹ جاری ہو جائیں اور یہ بر وقت نہ بدلوا سکے تو بالکل ہی خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔ بینک دیوالیہ ہو جائے تو اس کا چیک کسی کام کا نہیں رہتا اور ساری رقم ہی برباد ہو جاتی ہے۔ ضروری بوجھ سے جان چھڑانے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔اگر اللہ نے چاہا تو اس کے مخلص بندے یہود کے شکنجے کو توڑ کر سود اور بینکوں کو ختم کرکے سونے یا چاندی کے سکے جاری کریں گے، تاکہ کوئی کسی کا حق نہ مار سکے۔ یہاں مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ بوجھ سے جان چھڑانے میں بنی اسرائیل کو کتنا نقصان ہوا اور اب مسلم اور غیر مسلم صرف بوجھ اٹھائے پھرنے سے بچنے کی خاطر کتنے بڑے خسارے میں پڑے ہوئے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں درحقیقت کچھ بھی نہیں، سب یہودی سود خوروں یا ان کے گماشتوں کے پاس ہے۔ ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی مالیت سونے چاندی کی صورت میں محفوظ رکھے، صرف اتنا بیچ لے جتنے استعمال کی ضرورت ہے۔ سونے کی قیمت ہمیشہ ایک رہی ہے اور رہے گی۔ دیکھیے صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دینار میں بکری خریدنا منقول ہے، ہجرت کو چودہ سو تیس سال گزرنے کے باوجود آج بھی بکری کی قیمت یہی ہے۔