سورة طه - آیت 77

وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا لَّا تَخَافُ دَرَكًا وَلَا تَخْشَىٰ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تو راتوں رات میرے بندوں کو لے چل (١) پھر نہ تجھے کسی کے آپکڑنے کا خطرہ ہوگا نہ ڈر (٢)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَقَدْ اَوْحَيْنَا اِلٰى مُوْسٰى....: فرعون کے جادوگروں کے مقابلے میں ناکام ہونے اور ان کے ایمان قبول کر لینے کے بعد ایک لمبی مدت گزری، جس میں بنی اسرائیل پر ظلم کے کئی پہاڑ ٹوٹتے رہے، ساتھ ہی فرعون اور اس کی قوم پر قحط، طوفان، ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں اور خون کی صورت میں معجزے کے طور پر کئی عذاب آئے، جن میں سے ہر عذاب آنے پر وہ لوگ اپنے ایمان لانے کا اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے کا وعدہ کرتے مگر عذاب ٹل جانے پر صاف مکر جاتے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو راتوں رات بنی اسرائیل کو ساتھ لے جانے کا حکم دیا۔ اس کا ذکر سورۂ اعراف (۱۳۰ تا ۱۳۵) میں تفصیل سے ہے۔ یہاں وہ ساری بات حذف کرکے فرعون کا انجام ذکر فرما دیا۔ اس لیے اس آیت کا عطف آیت (۵۶) ﴿وَ لَقَدْ اَرَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَ اَبٰى ﴾ پر ہے کہ فرعون کے تمام آیات (نشانیوں) کو جھٹلانے اور انکار کا انجام کیا ہوا؟ اس کا عطف موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں کے مقابلے کے واقعہ پر نہیں۔ (بقاعی) اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْ....: یہ قصہ تفصیل کے ساتھ سورۂ شعراء (۵۲ تا ۶۶) اور یونس (۹۰ تا ۹۲) میں مذکور ہے۔ یہاں ’’فَاجْعَلْ لَهُمْ طَرِيْقًا ‘‘ (پس ان کے لیے راستہ بنا) کے بجائے ’’ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا ‘‘ (پس ان کے لیے سمندر میں ایک خشک راستہ مار) فرمایا، مقصود لمبی بات کو مختصر کرنا ہے، یعنی ’’اِجْعَلْ لَهُمْ بِضَرْبِ الْبَحْرِ بِعَصَاكَ طَرِيْقًا ‘‘ (سمندر پر اپنی لاٹھی مارنے کے ساتھ ان کے لیے اس میں خشک راستہ بنا)۔ گویا ’’اِضْرِبْ‘‘ میں ’’اِجْعَلْ‘‘ کا معنی سمو دیا ہے، اسے تضمین کہتے ہیں۔ لَا تَخٰفُ دَرَكًا وَّ لَا تَخْشٰى : ’’ لَا تَخْشٰى ‘‘ کا مفعول ذکر نہیں فرمایا، تاکہ وہ عام رہے۔ معنی یہ ہو گا کہ نہ تو پکڑے جانے سے خوف کھائے گا اور نہ کسی بھی دوسری چیز سے ڈرے گا، مثلاً غرق ہونے، راستہ بھول جانے، بھوک پیاس سے ہلاک ہونے یا کسی اور دشمن کے حملے سے، غرض کسی بھی خطرے کا تجھے ڈر نہیں ہو گا۔ بعض مفسرین نے اس کا مفعول ’’غَرْقًا‘‘ محذوف مانا ہے، یعنی تو غرق ہونے سے نہیں ڈرے گا، مگر محذوف مفعول مقام کی مناسبت سے کوئی بھی ہو سکتا ہے، اس لیے اسے عام رکھنا بہتر ہے اور پھر اس میں غرق ہونا بھی آ جاتا ہے۔