قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ
جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت، شکل عنایت فرمائی پھر راہ سجھا دی (١)۔
1۔ قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْ اَعْطٰى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ : یعنی صرف یہی نہیں کہ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے، بلکہ اس نے ہر چیز کو پیدا کرتے ہوئے اسے اس کی حسب ضرورت اور حسب حال شکل و صورت عطا فرمائی۔ چلنے والے، اڑنے والے اور تیرنے والے ہر جاندار کو، ہر درخت، پہاڑ اور دریا کو اور زمین و آسمان غرض ہر مخلوق کو ایسی شکل و صورت عطا فرمائی کہ کوئی دوسرا نہ اسے بنا سکتا ہے، نہ کوئی نقص یا عیب نکال سکتا ہے اور نہ اس سے بہتر شکل پیش کر سکتا ہے۔ دیکھیے سورۂ سجدہ (۷) اور سورۂ ملک (۳)۔ 2۔ ثُمَّ هَدٰى : یعنی اس کے حسب حال شکل و صورت عطا فرما کر اسے زندگی گزارنے اور اپنی بناوٹ سے کام لینے کا راستہ بھی بتایا ہے، چنانچہ پرندے کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی دانہ چگنے لگتا ہے، بطخ کا بچہ تیرنے لگتا ہے، جبکہ جانور اور انسان کا بچہ پیدا ہوتے ہی دودھ پینے لگتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ نہ سکھاتا تو کون سکھا سکتا تھا؟ الغرض اس کائنات میں ہر چیز جو بھی کام کر رہی ہے اس کی دی ہوئی ہدایت اور تعلیم ہی سے کر رہی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا رب تو نہیں بلکہ وہ بزرگ و برتر اللہ ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے عموماً وہی دلائل پیش کیے جو ان کے جد امجد ابراہیم علیہ السلام نے پیش کیے تھے۔ دیکھیے سورۂ شعراء (۲۳ تا ۲۹)۔