قَالَ لَا تَخَافَا ۖ إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ
جواب ملا کہ تم مطلقاً خوف نہ کرو میں تمہارے ساتھ ہوں اور سنتا اور دیکھتا رہوں گا (١)
1۔ اِنَّنِيْ مَعَكُمَا : بے شک میں تمھارے ساتھ ہوں، اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ساتھ ہے، فرمایا : ﴿ وَ هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ﴾ [الحدید : ۴ ] ’’اور وہ تمھارے ساتھ ہے، تم جہاں کہیں بھی ہو۔‘‘ مگر یہاں اس سے مراد خاص معیت (ساتھ) ہے، یعنی میں تمھاری ہر طرح سے حفاظت و نصرت کروں گا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا : ﴿ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ﴾ [التوبۃ : ۴۰ ] ’’غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ غور کیجیے پورے مصر کے وسائل کے مالک، بے پناہ فوج کے پہرے میں رب اور معبود ہونے کے دعوے دار کے پاس مقہور و مجبور اور غلام قوم کے دو آدمی جاتے ہیں، جن کے پاس بظاہر ایک لاٹھی کے سوا کچھ نہیں، نہ انھیں کوئی پہرے دار روک سکتا ہے اور نہ فوج کو روکنے کی جرأت ہوتی ہے۔ وہ سیدھے فرعون کے بھرے دربار میں بلاخوف و خطر جا کر اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ اس کے ہر سوال کا جواب دیتے ہیں اور اس کے ہر مغالطے کا پردہ چاک کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ لاجواب ہو کر قید کی دھمکی دیتا ہے، مگر اسے نہ قید کرنے کی جرأت ہوتی ہے اور نہ کسی اور زیادتی کی، اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے کا مظاہرہ اور کیا ہو گا؟ 2۔ اَسْمَعُ وَ اَرٰى : میں دوسرے بھیجنے والوں کی طرح نہیں جو اپنا قاصد بھیج کر نہ اسے دیکھ سکتے ہیں اور نہ اس کی بات سن سکتے ہیں، بلکہ میں ہر وقت تمھارے ساتھ ہوں، تمھاری اور سب کی ہر بات سن رہا ہوں اور ہر عمل دیکھ رہا ہوں۔ ایسی کوئی بات اور ایسا کوئی کام نہ ہونے دوں گا جس کا تمھیں خوف ہے۔