اذْهَبَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ
تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑی سرکشی کی ہے
اِنَّهٗ طَغٰى : ’’ طُغْيَانٌ ‘‘ کا اصل معنی حد سے بڑھ جانا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ ﴾ [الحاقۃ : ۱۱ ] ’’بلاشبہ ہم نے ہی جب پانی حد سے تجاوز کر گیا تمھیں کشتی میں سوار کیا۔‘‘ فرعون کی طغیانی اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر ذکر فرمائی ہے کہ وہ اپنے رب اعلیٰ ہونے کا دعوے دار تھا۔ (نازعات : ۲۴) وہ بلاشرکت غیرے معبود (الٰہ) ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا۔ (قصص : ۳۸) اس نے بنی اسرائیل کو یہ باتیں نہ ماننے کی وجہ سے غلامی اور بدترین عذاب کا نشانہ بنا رکھا تھا، ان کے بیٹے نہایت بے رحمی سے قتل کرتا، عورتوں کو زندہ رکھ کر اپنی اور اپنی قوم کی زیادتیوں کا نشانہ بناتا اور مردوں سے بے گارلیتا تھا۔ (قصص : ۴) جسے چاہتا انکار پر جیل میں ڈال دیتا تھا۔ (شعراء : ۲۹)