سورة طه - آیت 42

اذْهَبْ أَنتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اب تو اپنے بھائی سمیت میری نشانیاں ہمراہ لئے ہوئے جا، اور خبردار میرے ذکر میں سستی نہ کرنا (١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِذْهَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْكَ بِاٰيٰتِيْ : یہ ہے وہ مقصد جس کے لیے موسیٰ علیہ السلام کی پرورش فرعون کے گھر میں اور پھر مدین میں کی گئی، چونکہ اس وقت وہاں ہارون علیہ السلام موجود نہیں تھے، اس لیے موسیٰ علیہ السلام کو مصر پہنچ کر انھیں ساتھ لے جانے کا حکم دیا۔ ’’بِاٰيٰتِيْ ‘‘ یعنی تم فرعون کے پاس خالی ہاتھ نہیں جاؤ گے بلکہ میری نشانیاں عصا اور ید بیضا تمھارے پاس ہوں گی، اس لیے بلاجھجک جاؤ اور میرا پیغام پہنچاؤ۔ وَ لَا تَنِيَا فِيْ ذِكْرِيْ : ’’لَا تَنِيَا ‘‘ ’’وَنٰي يَنِيْ وَنْيًا‘‘ بروزن ’’وَعَدَ يَعِدُ‘‘ سستی کرنا، کوتاہی کرنا، تھک کر رہ جانا۔ یعنی میری یاد میں کمی نہ کرنا، اس سے تمھارا عزم قوی اور قدم ثابت رہے گا، کیونکہ جب تم مجھے یاد کرو گے تو میرے بے شمار عظیم احسانات تمھارے سامنے رہیں گے، جس سے ادائے رسالت میں کوئی ضعف نہیں آئے گا۔ (طبری) اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی دشمن کے مقابلے کے وقت اپنے ذکر کثیر کا حکم دیا (دیکھیے انفال : ۴۵) اور ہر حال میں ذکر کرنے والوں کی تعریف فرمائی اور انھیں ’’اُولُوا الْاَلْبَابِ ‘‘ قرار دیا۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۹۰)۔