وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَىٰ
ہم نے تو تجھ پر ایک بار اور بھی بڑا احسان کیا ہے (١)
وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً اُخْرٰى : اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی، نبوت و رسالت کے منصب پر فائز ہونے، عصا و ید بیضا کے معجزے عطا ہونے، ان کا آنکھوں سے مشاہدہ کرنے اور اس موقع پر کی ہوئی چاروں دعاؤں کی قبولیت میں سے ہر ایک عظیم احسان تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان سے پہلے کیے گئے آٹھ احسانات کا ذکر فرمایا۔ مقصد یہ کہ میں نے تم پر پہلے بھی احسان کیے، اب بھی کیے اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا، کیونکہ میں نے تمھیں بنایا ہی خاص اپنے لیے ہے، فرمایا : ﴿ وَ اصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِيْ ﴾ [طٰہٰ : ۴۱ ] ’’اور میں نے تجھے اپنے لیے خاص طور پر بنایا ہے۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آئندہ کے وعدے کا یقین دلانے کے لیے پچھلے احسانات یاد دلائے، فرمایا : ﴿ وَ لَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى (5) اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاٰوٰى (6) وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى (7) وَ وَجَدَكَ عَآىِٕلًا فَاَغْنٰى﴾ [الضحیٰ : ۵ تا ۸ ] ’’اور یقینا عنقریب تیرا رب تجھے عطا کرے گا، پس تو راضی ہو جائے گا۔ کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا، پس جگہ دی اور اس نے تجھے راستے سے ناواقف پایا تو راستہ دکھا دیا اور اس نے تجھے تنگدست پایا تو غنی کر دیا۔‘‘ (ابن عاشور) ’’اور بلاشبہ یقینا ہم نے تجھ پر ایک اور بار بھی احسان کیا‘‘ اس میں احسان کو مجمل رکھا ہے، تاکہ شوق پیدا ہو کہ وہ کیا احسان تھا، پھر چار آیات (۳۸ تا ۴۱) میں پے در پے آٹھ احسان ذکر فرمائے : (1) ’’اِذْ اَوْحَيْنَا اِلٰى اُمِّكَ مَا يُوْحٰى ‘‘ (2) ’’ وَ اَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ‘‘ (3) ’’ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰى عَيْنِيْ ‘‘ (4) ’’ فَرَجَعْنٰكَ اِلٰى اُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ ‘‘ (5) ’’ وَ قَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنٰكَ مِنَ الْغَمِّ ‘‘ (6) ’’ وَ فَتَنّٰكَ فُتُوْنًا ‘‘ (7) ’’ فَلَبِثْتَ سِنِيْنَ فِيْ اَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلٰى قَدَرٍ يّٰمُوْسٰى ‘‘ (8) ’’ وَ اصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِيْ ‘‘