سورة البقرة - آیت 231

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جب تم عورتوں کو طلاق دو وہ اپنی عدت ختم کرنے پر آئیں تو اب انہیں اچھی طرح بساؤ یا بھلائی کے ساتھ الگ کر دو (١) اور انہیں تکلیف پہنچانے کی غرض سے ظلم اور زیادتی کے لئے نہ روکو جو شخص ایسا کرے اس نے اپنی جان پر ظلم کیا تم اللہ کے احکام کو ہنسی کھیل نہ (٢) بناؤ اور اللہ کا احسان جو تم پر ہے یاد کرو اور جو کچھ کتاب و حکمت اس نے نازل فرمائی ہے جس سے تمہیں نصیحت کر رہا ہے اس سے بھی۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ:اس کا مطلب عدت ختم ہونا نہیں بلکہ عدت ختم ہونے کے قریب ہونا ہے۔ اس کی دلیل پیچھے گزرا ہوا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:﴿وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِيْ ذٰلِكَ﴾ [ البقرۃ:۲۲۸ ]’’اور ان کے خاوند اس مدت میں انھیں واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ 2۔ یعنی اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق رجعی دو تو ان کی عدت پوری ہونے سے پہلے پہلے تمہیں رجوع کا حق پہنچتا ہے، مگر یہ رجوع محض انھیں ستانے اورنقصان پہنچانے کی غرض سے نہ ہو، کیونکہ ایسا کرنا ظلم و زیادتی اور احکامِ الٰہی سے مذاق کرنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ جنھیں کوئی سنجیدگی سے کہے تو وہ سنجیدہ ہیں اور ہنسی مذاق میں کہے تب بھی وہ سنجیدہ ہیں، نکاح، طلاق اور رجوع۔‘‘ [ أبو داؤد، الطلاق، باب فی الطلاق علی الھزل:۲۱۹۴۔ ابن ماجہ:۲۰۳۹۔ ترمذی، ابن حجر، سیوطی اور البانی رحمھم اللہ نے اسے حسن کہا ہے ] مِّنَ الْكِتٰبِ وَ الْحِكْمَةِ:یہاں ”الْحِكْمَةِ“ سے مراد سنت ہے، یعنی کتاب و سنت کی جو نعمت تم پر نازل کی ہے اسے مت بھولو۔ یہ دونوں وحی الٰہی ہیں اور دلیل ہونے میں دونوں برابر ہیں۔ لہٰذا منکرِ حدیث کا بھی وہی حکم ہے جو منکرِ قرآن کا ہے، مطلب یہ کہ ان آیات میں بیان کردہ گھریلو مسائل کو حدیث پاک کی روشنی میں زیر عمل لانا ضروری ہے۔