الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ
جو رحمٰن ہے، عرش پر قائم ہے (١)
1۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى: یعنی آپ پر قرآن کا نازل کرنا اور زمین اور بلند آسمان کو پیدا کرنا جس بے حد رحم والے کی رحمت کا نتیجہ ہے وہ رحمان عرش پر بلند ہے۔ عرش کا لفظی معنی تخت ہے اور ’’ اسْتَوٰى ‘‘ کا معنی ’’اِرْتَفَعَ‘‘ (بلند ہوا) ہے۔ عرش کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے اور پوری کائنات کی تدبیر فرما رہا ہے، فرمایا : ﴿ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ ﴾ [یونس : ۳ ] ’’پھر وہ عرش پر بلند ہوا، ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔‘‘ اس آیت اور دوسری آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے، مگر یہ بات کہ وہ عرش کے اوپر کس طرح ہے؟ کھڑا ہے یا بیٹھا ہے یا کس کیفیت میں ہے؟ کوئی نہیں جانتا، نہ جان سکتا ہے، کیونکہ مخلوق محدود ہے اور وہ لامحدود۔ مخلوق میں سے کوئی بھی خالق کو تو کجا اس کی معلومات میں سے بھی کوئی چیز پوری طرح نہیں جان سکتا، مگر جو وہ چاہے، فرمایا : ﴿ وَ لَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖ اِلَّا بِمَا شَآءَ ﴾ [البقرۃ : ۲۵۵ ] ’’اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے، جو انبیاء علیھم السلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال نہیں کیا کہ وہ اپنے تخت پر کس طرح ہے؟ اسی لیے کسی شخص نے امام مالک رحمہ اللہ سے ’’ اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى ‘‘ کے متعلق پوچھا کہ کس طرح؟ تو انھوں نے فرمایا: ’’اَلْاِسْتِوَاءُ مَعْلُوْمٌ وَالْكَيْفُ مَجْهُوْلٌ وَالسُّؤَالُ عَنْهُ بِدْعَةٌ ‘‘ ’’یہ بات سب جانتے ہیں کہ وہ عرش کے اوپر ہے، مگر یہ کسی کو معلوم نہیں کہ کس طرح ہے اور اس کے متعلق سوال بدعت ہے۔‘‘ مزید فرمایا : ’’میں تمھیں برا آدمی خیال کرتا ہوں، اسے میرے پاس سے نکال دو۔‘‘ تو سوال کرنے والا یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ اے ابو عبد اللہ! میں نے اس کے متعلق اہل عراق اور اہل شام سے پوچھا مگر کسی کو آپ (کے صحیح جواب) جیسی توفیق عطا نہیں ہوئی۔ (تفسیر بغوی) خلاصہ یہ کہ جو بات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے بتائی ہے اس پر ایمان رکھنا فرض ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، اللہ تعالیٰ کے عرش کو قیامت کے دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے (دیکھیے حاقہ : ۱۷) اس کے پائے بھی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلنَّاسُ يَصْعَقُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَكُوْنُ أَوَّلَ مَنْ يُّفِيْقُ فَإِذَا أَنَا بِمُوْسٰی آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ فَلَا أَدْرِيْ أَفَاقَ قَبْلِيْ أَمْ جُوْزِيَ بِصَعْقَةِ الطُّوْرِ )) ’’لوگ قیامت کے دن بے ہوش ہو جائیں گے تو سب سے پہلا شخص جو ہوش میں آئے گا میں ہوں گا۔ اچانک میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کے پایوں میں سے ایک پائے کو پکڑے ہوئے ہوں گے، تو میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے یا انھیں طور کی بے ہوشی کا بدلہ دیا گیا۔‘‘ [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿وواعدنا موسٰی ثلاثین....﴾ : ۳۳۹۸، عن أبي سعید الخدري رضی اللّٰہ عنہ ] مگر اللہ کا عرش پر ہونا یا اس کی کوئی بھی صفت مخلوق کی صفت کے مشابہ نہیں، فرمایا : ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ﴾ [الشورٰی : ۱۱ ]’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ تمام سلف کا اللہ تعالیٰ کے عرش پر بلند ہونے اور دوسری صفات کے متعلق یہی عقیدہ ہے۔ خیر القرون گزرنے کے بعد جب عقیدہ و اعمال کی بدعات شروع ہوئیں تو اللہ تعالیٰ کے متعلق آیات و احادیث کی بھی اپنی اپنی بدعات کے مطابق تاویل بلکہ تحریف کی جانے لگی۔ چنانچہ بہت سے لوگوں نے کہا کہ عرش کے اوپر ہونے کا مطلب زمین و آسمان کی حکومت کا مالک ہونا ہے، ورنہ نہ کوئی عرش ہے اور نہ اللہ تعالیٰ اس کے اوپر ہے۔ وہ نہ اوپر ہے نہ نیچے اور نہ کسی اور جہت میں، نہ وہ آسمان دنیا پر اترتا ہے اور نہ قیامت کے دن زمین پر آئے گا۔ غرض تاویل کے نام پر صریح آیات و احادیث کا انکار کر دیا۔ مگر اتنے بڑے بڑے علماء پر تعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے اتنی جرأت کے ساتھ اس عرش عظیم و کریم کا انکار کیسے کر دیا کہ جس پر اپنے بلند ہونے کا ذکر خود رحمان نے فرمایا اور جسے قیامت کے دن تمام لوگوں کے اوپر آٹھ فرشتوں کے اٹھانے کا ذکر قرآن کریم نے فرمایا ہے اور جس کے پایوں کا ذکر اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ [ فَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْأَھْوَاءِ الْمُضِلَّۃِ وَالْعَقَائِدِ الْبَاطِلَۃِ وَ خُذْلَانِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی ] مزید دیکھیے سورۂ اعراف (۵۴)، حاقہ (۱۷) اور سورۂ فجر (۲۲) مفسر جمال الدین قاسمی لکھتے ہیں : ’’فلکیات کے جدید ماہرین کی تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ عرش ایک حقیقی وجود ہے جس کا باقاعدہ جسم ہے، کائنات کے جتنے عالم ہیں وہ سب کا مرکز ہے، یعنی جذب، تاثیر، تدبیر اور نظام سب کا مرکز ہے (تمام کہکشائیں جن کا ایک ایک سیارہ سورج سے بھی ہزاروں گنا بڑا ہے، اسی کے گرد گردش کر رہی ہیں اور اس کے انکار یا تاویل کی گنجائش ہی نہیں)۔‘‘ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’کہ ہم انصاف کے ترازو قیامت کے دن رکھیں گے‘‘ کے متعلق جب عقل پرستوں کی عقل میں یہ بات نہ آ سکی کہ اعراض کا وزن کیسے ہو گا تو انھوں نے وزن اعمال کا انکار کر دیا، یا تاویل کر دی۔ جب کہ جدید ایجادات میں تقریباً ہر چیز کا میٹر تیار ہو چکا ہے، بجلی، بخار، حرارت، سردی، کثافت، نمی، خشکی غرض بے شمار اعراض کے ماپنے تولنے کے پیمانے وجود میں آ چکے ہیں جن کی وجہ سے عقل پرستوں کے انکار اور تاویل کا تاروپود بکھر چکا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے زمین پر قرآن نازل فرمایا، اس لیے پہلے اس کا ذکر فرمایا، پھر بلند آسمان کا، پھر رحمان کے عرش پر ہونے کا کہ دیکھو یہ رحمت کہاں سے نازل ہوئی اور کس عظیم شخصیت پر نازل ہوئی۔ اس میں قرآن کی رفعت و عظمت کا بھی بیان ہے اور صاحب قرآن کی عظمت کا بھی۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کی امت کو اس نعمت کی قدر کا احساس دلانا بھی ہے اور کفار کی طرف سے پیش آنے والی مزاحمت اور مصائب و تکالیف کے مقابلے میں تسلی اور خوش خبری بھی کہ اس رحمان کی پشت پناہی حاصل ہونے کے بعد تمھیں کس بات کی پروا ہے۔ اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام کا ذکر تفصیل سے کیا کہ انبیاء اور ان کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید کس کس طرح حاصل ہوتی ہے اور انھیں کیا کیا آزمائشیں پیش آتی ہیں۔