سورة مريم - آیت 59

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

پھر ان کے بعد ایسے اطاعت نہ کرنے والے پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا (١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ : لفظ ’’ خَلْفٌ ‘‘ لام کے سکون کے ساتھ ’’اولاد‘‘، واحد و جمع دونوں کے لیے ایک ہی لفظ آتا ہے اور اکثر بری اولاد اور مذمت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور لام کے فتحہ کے ساتھ’’ خَلَفٌ‘‘ ’’جانشین‘‘ کے معنی میں آتا ہے، وہ چاہے اولاد ہو یا کوئی اور۔ اس کا استعمال اکثر مدح و تعریف کے لیے ہوتا ہے اور دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ: نماز ضائع کرنے میں سب سے پہلے اس عقیدے کی ایجاد ہے کہ ایمان صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے اور ان دونوں چیزوں سے ایمان مکمل ہو جاتا ہے۔ عمل کرے تو اچھا ہے، درجہ بڑھ جائے گا، ورنہ ایمان میں نہ کمی ہوتی ہے نہ اضافہ، جب کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کو ایمان قرار دیا ہے، فرمایا : ﴿ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ﴾ [البقرۃ : ۱۴۳] ’’اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ تمھارا ایمان ضائع کر دے۔‘‘ مگر ان لوگوں نے نماز کو ایمان ماننے سے انکار کر دیا، پڑھنے والا بھی مومن، نہ پڑھنے والا بھی، جو انکار نہ کرے پکا مومن۔ پھر اس عقیدے کی ایجاد کہ نماز تو دل کی ہوتی ہے، قیام، سجدے اور رکوع کی کیا ضرورت ہے اور اسے طریقت اور معرفت قرار دینا نماز ضائع کرنے کا عام بہانہ ہے۔ اس کے علاوہ نماز کو صحیح وقت پر نہ پڑھنا، یا اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہ پڑھنا، کبھی پڑھنا، کبھی نہ پڑھنا، یا سرے سے اسے ترک کر دینا، سب نماز ضائع کرنے کی صورتیں ہیں۔ نماز ترک کر دینے سے انسان کے پاس اسلام کی آخری عملی شہادت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے امام احمد کے قول اور امام شافعی کے ایک قول کے مطابق نماز کا تارک کافر ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں، دیکھیے سورۂ توبہ کی آیات (۵) اور (۱۱) کی تفسیر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اس بحث کے لیے فیصلہ کن نظر آتی ہے، ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَتُنْتَقَضَنَّ عُرَی الْإِسْلَامِ عُرْوَةً عُرْوَةً فَكُلَّمَا انْتَقَضَتْ عُرْوَةٌ تَشَبَّثَ النَّاسُ بِالَّتِيْ تَلِيْهَا فَأَوَّلُهُنَّ نَقْضًا الْحُكْمُ وَ آخِرُهُنَّ الصَّلَاةُ )) [صحیح ابن حبان، التاریخ، باب ذکر الأخبار بأن أول ما یظھر....: ۶۷۱۵۔ مسند أحمد :5؍ 251، ح : ۲۲۲۲۲ ] ’’اسلام کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹتی جائیں گی، جب بھی کوئی کڑی ٹوٹے گی تو لوگ اس کے بعد والی کو مضبوطی سے پکڑ لیں گے، چنانچہ سب سے پہلے ٹوٹنے والی کڑی ’’حکم‘‘ ہو گی (یعنی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلے کرنا) اور سب سے آخری کڑی نماز ہو گی۔‘‘ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ : انسان میں کئی شہوات و خواہشات پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر خواہش کی تکمیل کے لیے جائز طریقے بتائے ہیں، مثلاً عبادت کی جبلی خواہش پوری کرنے کے لیے اپنے ایک ہی رب اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق کرنا، جنسی خواہش کے لیے نکاح کرنا اور لونڈیاں رکھنا۔ مالی حرص کے لیے جائز طریقے سے مال کمانا، خرچ کرنا اور اس کی زکاۃ دینا، غصے کی جبلت کا رخ کفار اور دشمنان اسلام کے ساتھ جہاد کی طرف موڑنا، غرض ہر فطری جذبے کو پورا کرنے کا سامان بھی فرمایا اور اللہ کے حکم سے تجاوز پر حد بھی نافذ فرمائی۔ شرک کو ناقابل معافی جرم قرار دیا، زنا پر حد رکھی، قوم لوط کے عمل کو حرام قرار دیا، سود کو حرام قرار دیا، ڈاکے اور چوری کی حد مقرر کی، قتل یا زخمی کرنے والوں پر قصاص یا دیت لازم فرمائی۔ پہلے انبیاء کے نالائق جانشینوں نے جس طرح اللہ کے احکام کی پیروی کے بجائے اپنی خسیس خواہشات کی پیروی کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق ہماری امت کے خواہش پرستوں نے بھی وہی کام کیا، بلکہ انھوں نے اپنے پاس سے ایسے فقہی ضابطے بنائے اور انھیں اللہ کا حکم باور کروایا کہ جن سے اللہ کی حدود سرے سے باطل ہو گئیں۔ ساتھ ہی ہر حرام کام کی سزا سے بچنے کے لیے اس کا نام بدل دیا، یا اس کی حد سے بچنے کا حیلہ ایجاد کر دیا۔ وحدت الوجود اور تصور شیخ کے شرکیہ عقیدے اور عمل کو طریقت اور معرفت کا خوش نما نام دے لیا۔ زنا کی سزا سے بچنے کے لیے کہہ دیا کہ اجرت پر لا کر عورت سے زنا کرنے پر حد نہیں۔ زنا کا نام حلالہ اور متعہ رکھ دیا۔ ماں، بہن، بیٹی اور دوسری محرمات سے، یہ جانتے ہوئے کہ حرام ہیں، نکاح کرکے زنا کرے تو حد معاف قرار دی۔ کانوں اور آنکھوں کے زنا کو سماع، روح کی غذا یا آرٹ اور فنون لطیفہ کہہ دیا۔ سود حلال کر لیا مگر نام اس کا منافع رکھ دیا۔ دار الحرب میں سود کو بالکل ہی جائز قرار دے لیا۔ جان بوجھ کر زکوٰۃ سے بچنے کے لیے کوئی بھی حیلہ کرنا جائز کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ مکروہ بھی نہیں۔ کوئی خوبصورت لڑکی پسند آ جائے اور جھوٹے گواہ بھگتا کر قاضی سے اپنے حق میں فیصلہ کروا کر اس سے زنا کرلے تو اسے اللہ کے ہاں بھی گرفت سے بری قرار دیا۔ زنا پر پکڑا جائے، چار گواہ بھی بھگت جائیں مگر زانی کے صرف یہ کہہ دینے سے کہ یہ میری بیوی ہے، حد ختم کر دی، خواہ وہ بیوی ہونے کا کوئی ثبوت بھی پیش نہ کر سکے اور خواہ وہ عورت چیختی چلاتی رہے کہ میں اس کی بیوی نہیں بلکہ فلاں کی بیوی ہوں۔ انگور اور کھجور کے سوا کسی بھی چیز سے بنی ہوئی شراب حلال قرار دی اور نشہ آنے کے باوجود بھی اس سے حد ساقط کر دی اور نام بدل کر نبیذ، طلا یا کوئی اور رکھ لیا۔ قتل جان بوجھ کر کرے مگر تیز دھار آلے سے نہ کرے، یا آگ اور فائر سے نہ کرے تو قصاص ختم کر دیا، خواہ جان بوجھ کر اس سے بدفعلی کرکے مار دے، یا پتھروں سے مار دے، یا برف کے بلاک میں رکھ کر یا ڈبو کر مار دے، یا اسے قید کرکے بھوکا مار دے، یا دیوار میں چن کر مار دے، قصاص ختم کر دیا، صرف دیت لی جا سکتی ہے۔ چوری شہادتوں سے ثابت ہو جائے مگر صرف چور کے دعویٰ کر دینے سے کہ میں اس کا مالک ہوں، خواہ وہ مالک ہونے کی کوئی دلیل بھی نہ دے، حد موقوف کر دی گئی۔ غرض یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے ہاں جان، مال اور عزت و آبرو اس قدر برباد نہیں تھی جس قدر مسلمانوں نے خواہش پرستی میں آ کر اسے برباد کیا اور نام اس کا قوانین اسلام رکھ دیا۔ ان لوگوں نے تو یہ سب کچھ حیلے ایجاد کرکے کیا مگر موجودہ اکثر مسلم حکمرانوں نے حیلے کا تکلف بھی چھوڑ دیا اور صاف الفاظ میں حکم الٰہی کو وحشیانہ کہہ کر اسلام کی آخری کڑی نماز سے بھی فارغ ہو گئے۔ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بات سچی ہو گئی : (( لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتّٰی لَوْ سَلَكُوْا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوْهُ)) [بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب نزول عیسی ابن مریم علیھا السلام : ۳۴۵۶، عن أبي سعید رضی اللّٰہ عنہ ]’’تم اپنے سے پہلوں کے طریقوں پر چل نکلو گے (جس طرح) بالشت بالشت کے ساتھ اور ہاتھ ہاتھ کے ساتھ (برابر ہوتا ہے) حتیٰ کہ اگر وہ سانڈے کے بل میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی اس میں ضرور داخل ہو گے۔‘‘ نتیجہ مسلمانوں کی غلامی اور اللہ کے دشمنوں کے ان پر مسلط ہونے کی صورت میں سب کے سامنے ہے، جسے اللہ نے ’’ غَيًّا ‘‘ (گمراہی) فرمایا ہے۔ علاج اس کا بھی وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے۔ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا: ’’گمراہی کو ملیں گے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا و آخرت دونوں میں جنت کی راہ نہیں پا سکیں گے اور اس سے بھٹکے ہی رہیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے ’’ غَيًّا ‘‘ کی تفسیر خسارا فرمائی ہے۔ [ طبري بسند ثابت ] ’’ غَيًّا ‘‘ کی تفسیر جہنم کی ایک وادی یا کنواں صحیح سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔ ہاں، یہ درست ہے کہ ساری کی ساری جہنم ہی گمراہی کا انجام بد ہے، جسے مجرم جا ملیں گے۔