قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا
کہا اچھا تم پر سلام ہو (١) میں تو اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا (٢) وہ مجھ پر حد درجہ مہربان ہے۔
1۔ قَالَ سَلٰمٌ عَلَيْكَ : ابراہیم علیہ السلام نے اپنے جاہل باپ کے اس سنگ دلانہ جواب کے مقابلے میں پھر انتہائی نرمی کا مظاہرہ کیا اور اسے ’’ سَلٰمٌ عَلَيْكَ ‘‘ کہا کہ آپ سلامت رہیں۔ جاہلوں کے جواب میں ہمیں بھی یہی کہنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ دیکھیے سورۂ فرقان (۶۳) اور قصص (۵۵) جب کوئی ضد اور عناد پر تل جائے تو یہ رخصت ہونے اور ترک تعلق کا سلام ہے اور یہ جائز ہے، البتہ عام حالات میں کفار کو سلام میں پہل جائز نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا تَبْدَءُ وا الْيَهُوْدَ وَلاَ النَّصَارٰی بِالسَّلَامِ )) [مسلم، السلام، باب النھي عن ابتداء أھل الکتاب....: ۲۱۶۷، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’یہود و نصاریٰ کو سلام میں پہل مت کرو۔‘‘ 2۔ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّيْ : ابراہیم علیہ السلام نے اس وعدے کو نبھایا، دیکھیے سورۂ شعراء (۸۶) اور ابراہیم (۴۱) مگر اب فوت شدہ مشرک دوستوں یا رشتہ داروں کے لیے استغفار جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ(۱۱۳) اور سورۂ ممتحنہ(۴)۔ 3۔ اِنَّهٗ كَانَ بِيْ حَفِيًّا : ’’ حَفِيًّا ‘‘ ’’حَفِيَ حِفَاوَةً‘‘ (رَضِيَ ) سے ہے، کسی پر بہت مہربان ہونا، اس کے معاملات کی فکر رکھنا، اس کے متعلق کثرت سے پوچھتے رہنا۔ مزید دیکھیے سورۂ اعراف (۱۸۷) ’’ كَانَ ‘‘ سے ہمیشہ کا معنی واضح ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے مجھ پر بہت مہربان رہا ہے اور اس نے مجھے دعا قبول ہونے کی عادت ڈال دی ہے۔