يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا
میرے مہربان باپ! آپ دیکھیے میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں، (١) تو آپ میری ہی مانیں میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہبری کروں گا (٢)۔
1۔ يٰاَبَتِ اِنِّيْ قَدْ جَآءَنِيْ مِنَ الْعِلْمِ....: ’’ مِنَ الْعِلْمِ ‘‘ میں ’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، یعنی کچھ علم۔ دوسری بات میں بھی ان کی نرمی، دانائی اور حسن ادب دیکھیے۔ ’’ابا جی‘‘ کے لقب کے ساتھ مخاطب کیا، یہ نہیں کہا کہ آپ حد درجہ کے جاہل ہیں اور مجھے اللہ تعالیٰ نے صدیقیت اور نبوت کا عظیم مرتبہ عطا کیا ہے، بلکہ یہ کہا کہ میرے پاس کچھ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا اور وہ ہے سیدھے راستے کا علم، اس لیے اس میں میرے پیچھے چلنے میں عار محسوس نہ کریں۔ بے شک آپ باپ ہیں مگر یوں سمجھیں کہ میں اور آپ ایک سفر پر ہیں، مجھے راستے کا علم ہے اور آپ کو نہیں، تو آپ کو باپ ہونے کے باوجود میرے پیچھے چلنا ہو گا، تاکہ میں آپ کو صحیح منزل تک پہنچا دوں اور آپ غلط راستے پر چل کر بھٹکتے نہ پھریں۔ (زمحشری) 2۔ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا : ’’ سَوِيًّا ‘‘ ’’سَوِيَ يَسْوٰي‘‘ (ع) سے ’’فَعِيْلٌ‘‘ کے وزن پر صفت کا صیغہ ہے، سیدھا برابر راستہ جس میں نہ زیادتی ہے کہ اس کی عبادت ہو جو اس کا حق دار نہیں اور نہ کمی کہ حق دار کی عبادت بھی نہ کی جائے۔ (قاسمی)