وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
تو انھیں اس رنج و افسوس کے دن (١) کا ڈر سنا دے جبکہ کام انجام کو پہنچا دیا جائے گا (٢) اور یہ لوگ غفلت اور بے ایمانی میں ہی رہ جائیں گے۔
1۔ وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ....: مراد قیامت کا دن ہے جس میں حسرت اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو گا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ زمر (۵۶)، انعام (۳۱) اور بقرہ (۱۶۷)۔ 2۔ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ....: ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((يُؤْتٰی بِالْمَوْتِ كَهَيْئَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ فَيُنَادِيْ مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ ! فَيَشْرَئِبُّوْنَ وَ يَنْظُرُوْنَ فَيَقُوْلُ هَلْ تَعْرِفُوْنَ هٰذَا ؟ فَيَقُوْلُوْنَ نَعَمْ هٰذَا الْمَوْتُ وَكُلُّهُمْ قَدْ رَاٰهُ ثُمَّ يُنَادِيْ يَا أَهْلَ النَّارِ ! فَيَشْرَئِبُّوْنَ وَ يَنْظُرُوْنَ فَيَقُوْلُ هَلْ تَعْرِفُوْنَ هٰذَا ؟ فَيَقُوْلُوْنَ نَعَمْ، هٰذَا الْمَوْتُ وَ كُلُّهُمْ قَدْ رَاٰهُ فَيُذْبَحُ ثُمَّ يَقُوْلُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ ! خُلُوْدٌ فَلَا مَوْتَ وَ يَا أَهْلَ النَّارِ ! خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ، ثُمَّ قَرَأَ: ﴿ وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ ﴾ وَهٰؤُلَاءِ فِيْ غَفْلَةٍ أَهْلُ الدُّنْيَا ﴿ وَ هُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ﴾)) [بخاري، التفسیر، باب قولہ عز وجل: ﴿و أنذرھم یوم الحسرۃ ﴾ : ۴۷۳۰ ] ’’موت کو ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا، پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا : ’’اے جنت والو!‘‘ تو وہ سر اٹھائیں گے اور دیکھیں گے۔ وہ کہے گا : ’’کیا تم اسے پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں! یہ موت ہے‘‘ اور وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے، پھر وہ آواز دے گا : ’’اے آگ والو!‘‘ تو وہ سر اٹھائیں گے اور دیکھیں گے، وہ کہے گا : ’’کیا تم اسے پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں! یہ موت ہے‘‘ اور وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے تو اسے ذبح کر دیا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا : ’’اے جنت والو! (اب) ہمیشگی ہے، کوئی موت نہیں اور اے آگ والو! (اب) ہمیشگی ہے، کوئی موت نہیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿ وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ ﴾ (اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب فیصلہ کر دیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں) یعنی وہ سراسر دنیا کی غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا موت کے ذبح کے ذکر کے بعد اس آیت کو پڑھنا دلیل ہے کہ ’’ قُضِيَ الْاَمْرُ ‘‘ (فیصلہ کر دیے جانے) سے مراد موت کا ذبح کر دیا جانا ہے۔ مسند احمد (۳؍۹، ح : ۱۱۰۷۲) میں اسی حدیث کے شروع میں ہے کہ جب (تمام) جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے۔