وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا
اور اس نے مجھے اپنی والدہ کا خدمت گزار بنایا ہے (١) اور مجھے سرکش اور بد بخت نہیں کیا (٢)۔
1۔ وَبَرًّۢا بِوَالِدَتِيْ....: دیکھیے اسی سورت کی آیت (۱۴) وہاں ’’ عَصِيًّا ‘‘ فرمایا اور یہاں ’’ شَقِيًّا ۔‘‘ معلوم ہوا کہ والدین سے بدسلوکی کرنے والا شقی اور بدنصیب ہے، خصوصاً ایسی والدہ سے جو باپ اور ماں دونوں کی جگہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ قِيْلَ مَنْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! قَالَ مَنْ أَدْرَكَ أَبَوَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ )) [مسلم، البر والصلۃ، باب رغم من أدرک أبویہ أو أحدھما....: ۲۵۵۱، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو!‘‘ پوچھا گیا : ’’یا رسول اللہ! کون؟‘‘ فرمایا : ’’جس نے اپنے والدین میں سے ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے میں پایا پھر جنت میں داخل نہ ہوا۔‘‘ جنت میں داخلے سے محروم ہو جانے سے بڑھ کر کیا بدبختی ہو گی؟ 2۔ عیسیٰ علیہ السلام نے صرف والدہ کا نام لیا، تاکہ لوگوں کو ان کے باپ کے بغیر پیدا ہونے کا یقین ہو جائے اور والدہ کا ہر تہمت سے پاک ہونا ثابت ہو جائے۔