سورة مريم - آیت 20

قَالَتْ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

کہنے لگیں بھلا میرے ہاں بچہ کیسے ہوسکتا ہے؟ مجھے تو کسی انسان کا ہاتھ تک نہ لگا اور نہ میں بدکار ہوں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالَتْ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ....: ’’ بَغِيًّا ‘‘ کا معنی زانیہ ہے، اس کی جمع ’’ بَغَايَا ‘‘ اور مصدر ’’ بِغَاءٌ ‘‘ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ ﴾ [النور : ۳۳ ] ’’اور اپنی لونڈیوں کو زنا پر مجبور نہ کرو۔‘‘ مریم علیھاالسلام نے کہا کہ اولاد کے لیے تو مرد اور عورت کا ملنا ضروری ہے، جبکہ مجھے نہ کسی بشر نے نکاح کے ساتھ چھوا ہے اور نہ میں بدکار ہوں۔ ’’ لَمْ يَمْسَسْنِيْ بَشَرٌ‘‘ میں اگرچہ نکاح یا زنا کسی بھی طریقے سے کسی مرد کے چھونے کی نفی ہے اور یہی معنی سورۂ آل عمران (۴۷) میں مراد ہے، مگر یہاں زنا کے مقابلے میں آنے کی وجہ سے چھونے کا مطلب نکاح کے ساتھ چھونا ہے۔