سورة مريم - آیت 19

قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اس نے جواب دیا کہ میں تو اللہ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں، تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دینے آیا ہوں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالَ اِنَّمَا اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ....: جبریل علیہ السلام نے کہا کہ میں تو تیرے اسی رب کی طرف سے بھیجا ہوا ہوں جس کی تو پناہ پکڑ رہی ہے، تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں ۔بعض شرک کے بیمار یہاں سے کشید کرتے ہیں کہ دیکھو! جبریل بیٹا دے سکتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ غور کرتے تو لفظ ’’ رَسُوْلُ ‘‘ میں ان کی غلط فہمی کا علاج موجود ہے۔ قاصد کا اپنا کچھ نہیں ہوتا، اسے جو پیغام یا جو چیز دے کر بھیجا جاتا ہے وہ اسے وہاں پہنچا دیتا ہے جہاں اسے حکم ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ صاف الفاظ میں عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے کلمہ ’’ كُنْ ‘‘ کے ساتھ پیدا کرنے کا ذکر فرمایا، دیکھیے سورۂ آل عمران (۵۹) چونکہ وہ چیز قاصد کے ہاتھ بھیجی گئی ہوتی ہے، اس لیے بعض اوقات وہ اس کی نسبت اپنی طرف کر دیتا ہے، جیسا کہ یہاں جبریل علیہ السلام نے پاکیزہ لڑکا عطا کرنے کی نسبت اپنی طرف فرمائی، حالانکہ عطا وہ بھیجنے والے ہی کی تھی۔ مشہور سات قراء میں سے ابو عمرو بن العلاء بصری کی قراء ت ’’لِيَهَبَ لَكِ‘‘ ہے، جس کا معنی ہے کہ میں تو تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، تاکہ وہ تجھے ایک لڑکا عطا کرے۔ (ابن کثیر) جس طرح دوسرے چھ قاریوں کی قراء ت کے صحیح ہونے پر امت کا اتفاق ہے اسی طرح ابوعمرو بن العلاء بصری کی قراء ت صحیح ہونے پر بھی امت کا اتفاق ہے۔ اس قراء ت سے دوسری قراء ت کی بھی تفسیر ہو گئی کہ اصل عطا اللہ تعالیٰ کی ہے۔ رسول ہونے کی وجہ سے اس کی نسبت جبریل علیہ السلام کی طرف کی گئی ہے۔