سورة البقرة - آیت 219

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے (١) اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ (٢) ہے، آپ سے بھی دریافت کرتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں، تو آپ کہہ دیجئے حاجت سے زیادہ چیز (٣) اللہ تعالیٰ اس طرح سے اپنے احکام صاف صاف تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے تاکہ تم سوچ سمجھ سکو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

الْخَمْرِ:شراب، اس کی تفسیر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:(( کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٌ وَ کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ)) [ مسلم، الأشربۃ، باب بیان أن کل مسکر…:2003؍74] ’’ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور حرام ہے۔‘‘ بعض لوگوں نے صرف انگور کی شراب کو ’’خمر‘‘ قرار دے کر باقی سب کے دوسرے نام رکھ کر انھیں حلال کر لیا۔ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث کے عین مصداق ہیں کہ میری امت میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو عورتوں کی شرم گاہوں کو اور ریشم اور خمر (شراب) کو اور باجوں کو حلال کر لیں گے۔ [ بخاری، الأشربۃ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر:۵۵۹۰، عن أبی مالک الأشعری رضی اللّٰہ عنہ] ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’میری امت کے کچھ لوگ خمر (شراب) پییں گے اور اس کا نام کچھ اور رکھ لیں گے۔‘‘ [ أبو داؤد،الأشربۃ، باب فی الدّاذیّ:۳۶۸۸] الْمَيْسِرِ:جوا، یہ ”يُسْرٌ“ بمعنی سہولت سے ہے، کیونکہ جوئے میں بغیر مشقت کے دوسرے کا مال آسانی سے ہاتھ لگ جاتا ہے۔ آج کل پانسے، لاٹری، بیمے اور سٹے وغیرہ کے نام سے جو کاروبار ہورہا ہے سب جوئے کی صورتیں ہیں، حتیٰ کہ اخروٹوں کے ساتھ کھیل میں شرط ہو تو وہ بھی جوا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے سورۂ مائدہ کی آیت (۳) اور (۹۰) کے حواشی دیکھ لیں۔ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا:اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے کچھ فوائد بتلائے، مگر ساتھ ہی فرمایا کہ کچھ فوائد کے ساتھ ان میں بہت بڑا گناہ ہے، پھر مقابلہ نفع اور نقصان کا نہیں کیا کہ ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں، بلکہ فرمایا ان کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ ہے۔ معلوم ہوا کہ کوئی چیز دنیا میں کتنی بھی نفع بخش کیوں نہ ہو، اگر اس میں گناہ ہے تو مومن کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس آیت میں شراب اور جوئے کی حرمت کی طرف اشارہ موجود ہے، کیونکہ ان میں ”اِثْمٌ كَبِيْرٌ“ بتایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ”اِثْمٌ“ کو حرام قرار دیا ہے۔ ( دیکھیے الاعراف:۳۳) اس سے فوٹو کے فوائد اور گناہ کا، گھر میں ٹی وی، وی سی آر وغیرہ رکھنے کے فوائد اور گناہ کا اور کفار کے ملکوں میں جا کر رہنے کے فوائد اور گناہ کا مقابلہ بھی کر لینا چاہیے۔ قُلِ الْعَفْوَ:”الْعَفْوَ“ کا معنی صاحب قاموس نے کیا ہے:”خِيَارُ الشَّيْءِ وَ اَجْوَدُهٗ“ یعنی کسی چیز کا بہترین اور عمدہ ترین حصہ۔ طبری نے بھی کئی مفسرین سے یہ معنی نقل فرمایا ہے۔ اس صورت میں یہ آیت سورۂ آل عمران کی آیت (۹۲) اور سورۂ بقرہ کی آیت (۲۶۷) کی ہم معنی ہے، یعنی اپنی بہترین اور محبوب ترین چیز خرچ کرو۔ ترجمہ اسی معنی کے مطابق کیا گیا ہے۔ دوسرا معنی ہے ’’زائد چیز‘‘ اگرچہ زائد کا معنی بھی یہ ہو سکتا ہے کہ جو عمدگی میں بڑھیا ہو، مگر بہت سے علماء نے اس کا معنی اپنی اور گھر کی ضرورتوں سے زائد چیز کیا ہے۔ چنانچہ ہمارے شیخ محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں ”الْعَفْوَ“ سے مراد وہ مال ہے جو اہل و عیال اور لازمی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد بچ رہے اور جس کے خرچ کرنے کے بعد انسان خود اتنا محتاج نہ ہو جائے کہ دوسروں سے سوال کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’بہتر صدقہ وہ ہے جو خوش حالی کے ساتھ ہو اور تم پہلے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو۔‘‘ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب لا صدقۃ:۱۴۲۶، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ] یہ حکم زکوٰۃ کے علاوہ نفلی صدقے کا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔(اشر ف الحواشی) دونوں معنی مراد لینے میں بھی کوئی چیز مانع نہیں۔ بعض مسلمان کہلانے والے کمیونسٹوں نے اس آیت سے ضرورت سے زائد چیزوں کی ذاتی ملکیت کے انکار پر استدلال کیا ہے، حالانکہ اس کے معنی اوّل تو یہ ہیں کہ اپنی بہترین چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اس سے اشتراکی نظریے کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ اگر زائد خرچ کرنے کے معنی مراد لیے جائیں تو وہ بھی اگر لوگوں کی ملکیت میں کچھ ہو گا تو خرچ کریں گے اور یہ اختیار بھی ان کے پاس ہو گا کہ وہ کس چیز کو ضرورت سے زائد سمجھتے ہیں۔ اگر ملکیت ہی حکومت کی ہے تو لوگ کیا خرچ کریں گے۔ جبراً سب کچھ چھین لینے کو قرآن کا منشا قرار دینا لوگوں کی طرح قرآن پر بھی جبر ہے۔