سورة الكهف - آیت 110

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

آپ کہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں (١) (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، (٢) تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت (٣) میں کسی کو شریک نہ کرے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ....: اللہ کے کبھی ختم نہ ہونے والے کلمات میں سے تمام پیغمبر اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو کلمات لے کر آئے کفار نے ان پر ایمان لانے سے اس لیے انکار کر دیا کہ انھیں لانے والے بشر تھے۔ ان کے خیال میں بشر اللہ کا رسول نہیں ہو سکتا تھا۔ دیکھیے سورۂ ابراہیم (۱۱) اور بنی اسرائیل (۹۴) کی تفسیر۔ عقل کے ان اندھوں کو دیکھو کہ احسن تقویم والے انسان کو اللہ کا رسول ماننے کے لیے تیار نہیں، مگر بے جان پتھروں کو معبود مان رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہہ دیجیے کہ میں تمھاری طرح ایک بشر ہونے کے سوا کچھ نہیں، نہ میں رب ہوں، نہ رب ہونے میں میرا کوئی حصہ ہے، نہ عالم الغیب ہوں، نہ اپنے یا تمھارے لیے کسی نفع یا نقصان کا مالک ہوں، بلکہ میں تمھاری طرح صرف ایک بشر ہوں، آدم علیہ السلام کی اولاد ہوں۔ میرے والدین بھی ہیں، بیوی بچے بھی، کھانے پینے کی اور دوسری بے شمار اشیاء کی محتاجی میں بھی تمھارا شریک ہوں۔ پیدائش، بچپن، جوانی، بڑھاپے، تندرستی، بیماری اور وفات سب میں تمھاری طرح ہوں، ہاں اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے کہ اس نے اپنے کلمات پہنچانے کے لیے مجھے وحی کا شرف عطا فرمایا ہے، جس کا اصل الاصول ایک اللہ کی عبادت ہے۔ سو تم میری نبوت مانو اور اللہ کی توحیدپر ایمان لے آؤ۔ واضح رہے کہ قرآن مجید کے مطابق رسول بشر ہوتا ہے، جسے اللہ رسالت کے لیے چن لیتا ہے۔ کوئی یہ کہے کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا، یا یہ کہے کہ رسول بشر نہیں ہو سکتا، دونوں کا عقیدہ ایک ہے اور دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے کہ ’’ان مشرکین سے جو آپ کی رسالت کو جھٹلاتے ہیں، کہہ دیجیے کہ میں محض تمھارے جیسا ایک بشر ہوں، پھر جو شخص سمجھتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں تو جیسا کلام میں لے کر آیا ہوں وہ لے کر آئے، دیکھو میں نے عالم الغیب نہ ہوتے ہوئے ماضی کے جو واقعات (اصحاب کہف، ذوالقرنین وغیرہ کے) عین واقعہ کے مطابق تمھیں بتائے ہیں اگر اللہ تعالیٰ مجھے اطلاع نہ دیتا تو میں تمھیں کبھی نہ بتا سکتا۔‘‘ یہ تفسیر بھی اچھی ہے۔ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ....: ’’ يَرْجُوْا ‘‘ ’’رَجَاءٌ‘‘ کا معنی امید ہے، اس کے ضمن میں خوف بھی ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ امید پوری نہ ہو۔ غرض اس کے معنی امید اور خوف دونوں کر لیے جاتے ہیں۔ بندے اور اس کے رب کے تعلق کو نمایاں کرکے فرمایا کہ جو اپنے رب کی ملاقات اور دیدار کی امید رکھتا ہے، یا اس سے ملاقات کے وقت اس کے عذاب سے ڈرتا ہے اس کے لیے دو کام ضروری ہیں، پہلا یہ کہ وہ صالح عمل کرے اور صالح عمل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے سے بتایا ہے، اس کے علاوہ سب بدعت اور گمراہی ہے۔ دوسرا یہ کہ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے، نہ کسی دوسرے کی عبادت کرکے اور نہ ریا کاری کرکے، کیونکہ غیر اللہ کی عبادت اگر شرک اکبر ہے تو ریا کاری (دکھاوا) شرک اصغر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( قَالَ اللّٰهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی أَنَا أَغْنَی الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلاً أَشْرَكَ فِيْهِ مَعِيَ غَيْرِيْ تَرَكْتُهُ وَ شِرْكَهُ )) [مسلم، الزھد، باب تحریم الریاء : ۲۹۸۵، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے، میں تمام حصے داروں سے کہیں زیادہ (ہر قسم کے) حصے سے بے نیاز ہوں، جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے سوا کسی اور کو حصے دار بنایا تو میں اس عمل کو اور اس کے حصے کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ یعنی میں وہ حصہ بھی قبول نہیں کرتا جو اس عمل میں سے اس نے میرے لیے کیا ہے، کیونکہ اس میں دوسرا بھی حصے دار ہوتا ہے، تو میں اپنا حصہ بھی چھوڑ کر اسی کو دے دیتا ہوں، اب وہ اس کا اجر اسی سے لے، میں تو صرف وہ عمل قبول کرتا ہوں جو سارے کا سارا میرے لیے ہو، کسی دوسرے کا اس میں حصہ نہ ہو۔ جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : (( مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللّٰهُ بِهِ، وَ مَنْ يُرَائِيْ يُرَائِي اللّٰهُ بِهِ )) ’’جو شخص سنانے (شہرت) کی خاطر عمل کرے اللہ تعالیٰ (اس کی بدنیتی) سب کو سنا دے گا اور جو لوگوں کو دکھانے کے لیے کوئی کام کرے گا اللہ تعالیٰ اسے سب لوگوں کو دکھلا دے گا۔‘‘ [ بخاری، الرقاق، باب الریاء والسمعۃ : ۶۴۹۹ ] ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے، جو عیسائی تھا، جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’جو کتاب محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل ہوئی ہے اس کا کوئی حصہ تمھیں یاد ہے تو مجھے پڑھ کر سناؤ۔‘‘ چنانچہ جعفر رضی اللہ عنہ نے سورۂ مریم کا ابتدائی حصہ پڑھ کر سنایا، اللہ کی قسم! اسے سن کر نجاشی رونے لگا، حتیٰ کہ اس کی ڈاڑھی تر ہو گئی اور جتنے پادری اس کے پاس بیٹھے تھے وہ بھی رونے لگے، یہاں تک کہ ان کی کتابیں تر ہو گئیں، پھر نجاشی نے کہا : (( إِنَّ هٰذَا وَاللّٰهِ! وَالَّذِيْ جَاءَ بِهٖ مُوْسَی لَيَخْرُجُ مِنْ مِشْكَاةٍ وَاحِدَةٍ )) [مسند أحمد : 1؍202، ۲۰۳، ح : ۱۷۴۵، حسنہ محققوہ ] ’’اللہ کی قسم! یہ کلام اور وہ کلام جو موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے ایک ہی مشکاۃ(روشنی کے طاق) سے نکل رہا ہے۔‘‘