سورة الكهف - آیت 79

أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے۔ میں نے اس میں کچھ توڑ پھوڑ کا ارادہ کرلیا کیونکہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبراً ضبط کرلیتا تھا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ....: اس آیت میں کشتی کا مالک ہونے اور اسے کرایہ پر چلانے کے باوجود ان لوگوں کو مسکین کہا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ مسکین وہ ہے جس کی آمدنی اس کی ضروریات سے کم ہو، یعنی وہ ضرورت مند لوگ جو نہ مانگتے ہیں اور نہ کسی کو ان کی حالت کی خبر ہوتی ہے کہ ان پر صدقہ کریں۔ [ دیکھیے بخاري، الزکوٰۃ، باب قول اللہ عز و جل : ﴿ لا یسئلون الناس إلحافا.....﴾ : ۱۴۷۹۔ مسلم : ۱۰۳۹، عن أبي ھریرۃ رضی (آیت 66تا70)عنہ ] فقیر کی حالت مسکین سے بدتر ہوتی ہے۔ ’’ وَ كَانَ وَرَآءَهُمْ ‘‘ کا معنی ابن عباس رضی اللہ عنھما نے ’’ان کے آگے‘‘ کیا ہے۔ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿ فلما بلغا مجمع بینھما نسیا .....﴾ : ۴۷۲۶]