سورة الكهف - آیت 74

فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر دونوں چلے، یہاں تک کہ ایک (١) لڑکے کو پایا، خضر نے اسے مار ڈالا، موسیٰ نے کہا کہ کیا آپ نے ایک پاک جان کو بغیر کسی جان کے عوض مار ڈالا ؟ بیشک آپ نے تو بڑی ناپسندیدہ حرکت کی (٢)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

حَتّٰى اِذَا لَقِيَا غُلٰمًا فَقَتَلَهٗ: اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکا جوان تھا، اگرچہ وہ اپنے جیسے لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ کیونکہ گزشتہ حدیث میں ہے کہ وہ کافر تھا جب کہ اس کے والدین مومن تھے، اگر وہ بچہ ہوتا تو اسے کافر نہ کہا جاتا، کیونکہ مومنوں کی اولاد کو بچپن میں کافر نہیں کہا جاتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھی اسے کسی کو قتل نہ کرنے کی وجہ سے بے گناہ کہا ہے، بچہ ہونے کی وجہ سے نہیں۔ اس لیے خضر علیہ السلام کا اللہ کے حکم سے ایک کافر کو قتل کرنا کوئی جائے اعتراض نہیں۔ ’’غلام‘‘ کا لفظ بچے کے علاوہ جوان اور ادھیڑ عمر پر بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ حدیث معراج میں موسیٰ علیہ السلام نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’هٰذَا الْغُلَامُ‘‘ کہا ہے۔ [ بخاری : ۳۲۰۷ ] 2۔ بعض حضرات نے اس سوال کے جواب میں کہ خضر علیہ السلام کے لیے اس لڑکے کا قتل کیونکر جائز تھا، خضر علیہ السلام کو فرشتوں میں سے قرار دیا ہے جو اللہ کے حکم سے تکوینی امور سرانجام دیتے ہیں، مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ کارکنانِ قضا و قدرنہ کھاتے ہیں، نہ مہمان نوازی کے طور پر کھانے کا سوال کرتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کا بھنا ہوا بچھڑا پیش کرنے کا واقعہ اس کی دلیل ہے۔