سورة الكهف - آیت 60

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جبکہ موسیٰ نے اپنے نوجوان (١) سے کہا کہ میں تو چلتا ہی رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے (٢) سنگم پر پہنچوں، خواہ مجھے سالہا سال چلنا پڑے (٣)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ....: یہاں سے تیسرا قصہ شروع ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام خضر کے پاس علم حاصل کرنے کے لیے گئے۔ اگرچہ یہ اپنی جگہ ایک مستقل قصہ ہے، تاہم اس میں اس بات کی تائید بھی ہے جو پہلے دونوں قصوں میں گزری۔ اوپر ذکر فرمایا کہ کافر اپنے مال و جاہ پر مغرور رہتے اور مسلمانوں کو ذلیل سمجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے کہ اگر ان کو اپنے پاس نہ بٹھاؤ تو ہم آپ کے پاس بیٹھیں۔ اس پر دو بھائیوں کا قصہ بیان فرمایا اور پھر دنیا کی مثال بیان فرمائی اور بتایا کہ ابلیس غرور کے سبب ہی ہلاک ہوا اور اب خضر اور موسیٰ علیھما السلام کا واقعہ بیان فرمایا کہ دیکھو موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر اولو العزم پیغمبر اتنے زیادہ علم و عمل کے باوجود خضر علیہ السلام سے علم حاصل کرنے کے لیے گئے اور ان کے سامنے تواضع اختیار کرتے ہوئے ان کی ہر شرط قبول کی۔ (رازی و موضح) 2۔ ’’ لِفَتٰىهُ ‘‘ ’’فَتًي‘‘ کا معنی نوجوان ہے، خادم کو بھی ’’فَتًي‘‘ کہہ لیتے ہیں، کیونکہ بہتر خدمت نوجوان ہی کر سکتے ہیں۔ یہ یوشع بن نون تھے جو موسیٰ علیہ السلام سے بہت محبت رکھتے تھے، ان کی خدمت کے لیے ان کے ساتھ رہتے تھے، موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے جانشین بنے اور انھی کے ہاتھوں بیت المقدس فتح ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص اگر خوش دلی سے خدمت کرے تو اس سے خدمت لی جا سکتی ہے۔ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : ’’بَحْرٌ‘‘ کا لفظ عربی زبان میں نمکین پانی والے سمندر پر بھی بولا جاتا ہے اور میٹھے پانی والے دریا پر بھی۔ (قاموس) فارسی میں بھی دریا کا لفظ دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ دو بحر ذکر نہیں فرمائے، کیونکہ مراد قصہ گوئی نہیں، نصیحت ہے اور وہ ان دو دریاؤں کی تعیین کے بغیر بھی پوری ہے۔ بعض مفسرین نے ان سے بحر فارس اور بحر روم مراد لیے ہیں، مگر یہ ملتے نہیں۔ بعض نے بحر ابیض اور بحر احمر مراد لیے ہیں۔ بعض نے افریقہ کے اور بعض نے اندلس کے دو دریا مراد لیے ہیں۔ بعض نے دجلہ و فرات مراد لیے ہیں، مگر مصر کو مدنظر رکھیں تو سوڈان کی طرف سے مصر میں آنے والے دریائے نیل میں ملنے والے کئی دریاؤں کے نیل کے ساتھ ملنے کی کوئی جگہ مراد ہو سکتی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے وہاں گم ہونے کی علامت کے ساتھ متعین فرمایا۔ اب اندازے سے ان جگہوں میں سے دو دریاؤں کے جمع ہونے کی کوئی ایک جگہ متعین کرنا ممکن نہیں اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔ ’’ حُقُبًا ‘‘ ’’حَقْبَةٌ‘‘ کی جمع ہے، لمبی مدت کو ’’ حَقْبَةٌ ‘‘ کہتے ہیں۔ اس واقعہ کی تفصیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی ہے، قارئین اس پوری حدیث کو غور سے پڑھیں، آئندہ فوائد میں اس کا بار بار ذکر آئے گا۔ 4۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ان سے پوچھا گیا : ’’لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟‘‘ انھوں نے فرمایا : ’’میں ہوں۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ناراضگی کا اظہار فرمایا، کیونکہ انھوں نے یہ بات اللہ کے سپرد نہیں کی (کہ اللہ بہتر جانتا ہے)۔ سو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میرا ایک بندہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ ہے، وہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : ’’اے میرے رب! پھر میری اس سے ملاقات کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘ فرمایا : ’’اپنے ساتھ ایک مچھلی لے لو اور اسے کسی مکتل (کھجور کے نرم پتوں کی بنی ہوئی ٹوکری) میں رکھ لو، تو جہاں مچھلی کو گم پاؤ، وہ وہیں ہو گا۔‘‘ تو انھوں نے ایک مچھلی لی، اسے ایک ٹوکری میں رکھا اور چل پڑے اور اپنے ساتھ اپنے جوان یوشع بن نون کو بھی لے لیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک خاص قسم کی چٹان کے پاس پہنچے تو دونوں لیٹ گئے اور سو گئے۔ مچھلی تڑپی اور دریا میں جا گری اور اس نے دریا میں اپنا راستہ سرنگ کی صورت میں بنا لیا اور اللہ تعالیٰ نے مچھلی سے پانی کا بہاؤ روک دیا تو وہ اس پر طاق کی طرح ہو گیا۔ جب (موسیٰ علیہ السلام ) جاگے تو ان کا ساتھی انھیں مچھلی کے متعلق بتلانا بھول گیا، چنانچہ وہ دونوں دن کا باقی حصہ اور رات بھر چلتے رہے۔ اگلا دن ہوا تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے جوان سے کہا : ’’ہمارا دن کا کھانا لاؤ، ہمیں اپنے اس سفر میں بہت تھکاوٹ ہوئی ہے۔‘‘ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا : ’’موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی جب تک وہ اپنی اس جگہ سے آگے نہیں گزرے جس کا انھیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔‘‘ تو ان کے جوان نے ان سے کہا : ’’کیا آپ نے دیکھا کہ جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی بھول گیا اور مجھے اس کا ذکر کرنا شیطان ہی نے بھلایا ہے اور اس نے دریامیں اپنا عجیب راستہ بنا لیا۔‘‘ سو مچھلی کے لیے سرنگ بنی اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے جوان کو تعجب ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : ’’یہی تو ہم ڈھونڈ رہے تھے۔‘‘ چنانچہ وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانوں کا پیچھا کرتے ہوئے واپس پلٹے، یہاں تک کہ اس چٹان تک آ پہنچے، تو اس وقت (وہاں) ایک آدمی کپڑا اوڑھ کر لیٹا ہوا تھا۔ اسے موسیٰ علیہ السلام نے سلام کہا تو خضر نے کہا : ’’اور تیری (اس) سرزمین میں سلام کیسا؟‘‘ کہا : ’’میں موسیٰ ہوں۔‘‘ اس نے کہا : ’’بنی اسرائیل والے موسیٰ؟‘‘ کہا : ’’ہاں، میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ کو جو کچھ سکھایا گیا ہے اس میں سے کچھ بھلائی مجھے سکھا دیں۔‘‘ اس نے کہا : ’’تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہیں کر سکے گا، اے موسیٰ! میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر ہوں جسے تم نہیں جانتے اور تم اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر ہو جسے میں نہیں جانتا۔‘‘ تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا : ’’تم مجھے اگر اللہ نے چاہا تو صبر کرنے والا پاؤ گے اور میں تمھارے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔‘‘ تو خضر نے اس سے کہا : ’’پھر اگر تو میرے پیچھے چلا ہے تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں مت پوچھنا، یہاں تک کہ میں تیرے لیے اس کا کچھ ذکر شروع کروں۔‘‘ چنانچہ وہ دونوں چل پڑے، دریا کے کنارے پر جا رہے تھے کہ ایک کشتی گزری، انھوں نے ان سے بات کی کہ وہ انھیں سوار کر لیں۔ ان لوگوں نے خضر کو پہچان لیا، اس لیے انھوں نے ان کو کسی اجرت کے بغیر سوار کر لیا۔ جب وہ دونوں کشتی میں سوار ہوئے تو اچانک ہی خضر نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ تیشے کے ساتھ اکھیڑ دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس سے کہا : ’’ایسے لوگ جنھوں نے ہمیں اجرت کے بغیر سوار کر لیا، تم نے بڑھ کر ان کی کشتی کا تختہ اکھیڑ دیا، تاکہ اس میں سوار لوگوں کو غرق کر دو، بلاشبہ یقینا تو ایک بڑے کام کو آیا ہے۔‘‘ کہا : ’’کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ یقینا تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہ کر سکے گا؟‘‘ کہا : ’’مجھے اس پر نہ پکڑ جو میں بھول گیا اور مجھے میرے معاملے میں کسی مشکل میں نہ پھنسا۔‘‘ (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ پہلی دفعہ موسیٰ علیہ السلام سے بھول ہوئی تھی۔‘‘ فرمایا : ’’اور ایک چڑیا آئی اور کشتی کے ایک کنارے پر بیٹھ گئی، اس نے دریا میں ایک ٹھونکا مارا تو خضر نے اس سے کہا : ’’میرا علم اور تیرا علم اللہ کے علم میں سے اتنا ہی ہے جتنا اس چڑیا نے اس دریا سے کم کیا ہے۔‘‘ پھر وہ دونوں کشتی سے نکلے، ابھی وہ کنارے پر چل ہی رہے تھے کہ خضر نے ایک لڑکا دیکھا جو لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، تو خضر نے اس کا سر پکڑا اور اسے اپنے ہاتھ سے اکھیڑ کر قتل کر دیا۔ موسیٰ نے اس سے کہا : ’’کیا تو نے ایک بے گناہ جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر قتل کر دیا، بلاشبہ یقینا تو ایک بہت برے کام کو آیا ہے۔‘‘ کہا : ’’کیا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہ کر سکے گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اور یہ پہلی سے سخت (تنبیہ) تھی۔‘‘ کہا : ’’اگر میں تجھ سے اس کے بعد کسی چیز کے متعلق پوچھوں تو مجھے ساتھ نہ رکھنا، یقینا تو میری طرف سے پورے عذر کو پہنچ چکا ہے۔‘‘ پھر وہ دونوں چل پڑے، یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی والوں کے پاس آئے، انھوں نے اس کے رہنے والوں سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے انکار کر دیا کہ ان کی مہمان نوازی کریں، پھر انھوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو چاہتی تھی کہ گر جائے۔ فرمایا، ایک طرف جھکی ہوئی تھی۔ تو خضر اٹھے اور اسے اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : ’’ایسے لوگ جن کے پاس ہم آئے تو نہ انھوں نے ہمیں کھانا کھلایا اور نہ ہماری مہمان نوازی کی، اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے۔‘‘ (خضر نے) کہا : ’’یہ میرے اور تیرے درمیان جدائی ہے۔‘‘ اس کے بعد پورا واقعہ بیان فرمایا جو آیت (۷۸) سے آیت (۸۲) کے آخر تک ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما پڑھا کرتے تھے : ’’ وَ أَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ ‘‘ یعنی وہ لڑکا کافر تھا اور اس کے ماں باپ مومن تھے۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ﴿و إذ قال موسٰی لفتاہ لا أبرح.....﴾ : ۴۷۲۵ ]