وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْأَرْضَ بَارِزَةً وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا
اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے (١) اور زمین کو تو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا اور تمام لوگوں کو ہم اکٹھا کریں گے ان میں سے ایک بھی باقی نہ چھوڑیں گے (٢)
1۔ وَ يَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ ....: ’’ يَوْمَ ‘‘ ’’ أُذْكُرْ ‘‘ محذوف کی وجہ سے منصوب ہے۔ دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کے اجر کی پائیداری کی مناسبت سے اب قیامت کے دن کا ذکر فرمایا، یعنی اس دن کو یاد کیجیے جب پہاڑوں کو چلایا جائے گا اور وہ مختلف حالتوں سے گزرتے ہوئے آخر سراب کی طرح رہ جائیں گے، زمین کے سمندر، پہاڑ اور اونچی نیچی تمام جگہیں ہموار ہو جائیں گی اور پوری زمین پر نگاہ کے لیے کوئی رکاوٹ یا اوٹ باقی نہیں رہے گی۔ پہاڑوں پر گزرنے والی کیفیات کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نبا (۲۰)، حاقہ (۱۳ تا ۱۵)، طور (۹، ۱۰)، تکویر (۳)، نمل (۸۸)، معارج (۸، ۹)، قارعہ (۴، ۵)، مزمل (۱۴) اور واقعہ (۵، ۶) زمین کے ہموار ہونے کے ذکر کے لیے دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۱۰۵ تا ۱۰۷)۔ 2۔ وَ حَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا : اللہ تعالیٰ پہلے اور پچھلے سب لوگوں کو اکٹھا کرے گا، کسی کو باقی نہیں چھوڑے گا۔ دیکھیے سورۂ واقعہ (۴۹، ۵۰) دوسرے مقام پر وضاحت فرمائی کہ اس حشر میں جن و انس کے علاوہ دوسری تمام مخلوقات بھی شامل ہوں گی، چنانچہ فرمایا : ﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّا اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ ﴾ [الأنعام : ۳۸ ] ’’اور زمین میں کوئی چلنے والا جان دار نہیں اور نہ کوئی پرندہ ہے جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے مگر تمھاری طرح امتیں ہیں، ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی، پھر وہ اپنے رب کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَتُؤَدَّنَّ الْحُقُوْقُ إِلٰی أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتّٰي يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ)) [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ۲۵۸۲ ] ’’قیامت کے دن حق والوں کو ان کے حقوق ہر صورت ادا کیے جائیں گے، حتیٰ کہ بغیر سینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا۔‘‘