سورة الإسراء - آیت 82

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی (١)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ ....: یعنی قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ نازل کرنے میں یہ حکمت ہے کہ اہلِ ایمان کے دل میں اگر شک و شبہ یا کفر و نفاق کی کوئی بیماری پیدا ہو جائے تو قرآنی آیات کے ساتھ وہ تمام بیماریاں دور ہو کر ان کے دل اور روح کو مکمل شفا و رحمت حاصل ہو جائے۔ (’’سراسر شفا‘‘ کا مفہوم مصدر اور تنوین سے ظاہر ہو رہا ہے) مگر ظالموں کو یعنی کفار و مشرکین کو اس سے خسارے ہی میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ پہلی آیات کے ساتھ ان آیات کے انکار سے ان کا کفر اور بڑھ جاتا ہے۔ یہاں شفا سے مراد روحانی شفا، یعنی ایمان و یقین کی دولت مراد ہے، جو کفار کو حاصل نہیں ہوتی۔ دیکھیے سورۂ یونس (۵۷)، حم السجدہ (۴۴) اور توبہ (۱۲۴، ۱۲۵)۔ 2۔ اگرچہ اس آیت میں شفا سے اولین مراد روحانی شفا یعنی کفر و نفاق، شکوک و شبہات اور جہل سے شفا ہے، مگر اس کے احکام پر عمل کرنے سے انسان جسمانی بیماریوں سے بھی شفا پاتا ہے اور ان سے محفوظ بھی رہتا ہے۔ اس کے علاوہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ قرآن دم کے لیے پڑھا جائے تو اس سے مسلم و کافر دونوں کی جسمانی بیماریاں دور ہوتی ہیں۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک قبیلہ جنھوں نے کچھ مسافر صحابہ رضی اللہ عنھم کی مہمانی سے انکار کر دیا تھا، اتفاق سے اس قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، وہ لوگ اپنی ساری کوشش کے بعد صحابہ کے پاس دم کی درخواست لے کر آئے، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے تیس بکریوں کی شرط پر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ بالکل تندرست ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ [بخاری، الإجارۃ، باب ما یعطي في الرقیۃ....: ۲۲۷۶، ۵۰۰۷ ] اسی طرح خارجہ بن صلت رضی اللہ عنہ کے چچا نے سفر کے دوران ایک قبیلے کے لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ایک پاگل کو سورۂ فاتحہ کے ساتھ دم کیا تو وہ تندرست ہوگیا اور ان لوگوں نے انھیں سو بکریاں دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( خُذْهَا فَلَعَمْرِيْ لَمَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ )) [ أبو داؤد، الطب، باب کیف الرقٰی : ۳۸۹۶، صححہ الألباني ] ’’(بکریاں) لے لو، مجھے اپنی عمر کی قسم! جس نے باطل دم کے ساتھ کھایا (وہ کھاتا رہے) بلاشبہ یقیناً تو نے حق دم کے ساتھ کھایا ہے۔‘‘