سورة الإسراء - آیت 16

وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کرلیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات ثابت ہوجاتی ہے پھر ہم اسے تباہ و برباد کردیتے ہیں (١)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذَا اَرَدْنَا اَنْ نُّهْلِكَ ....: ’’ اَمَرْنَا ‘‘ امر نہی کی ضد ہے، حکم دینا ’’مُتْرَفٌ‘‘ وہ شخص جسے نعمت اور خوش حالی عطا کی گئی ہو اور کھلا چھوڑ دیا گیا ہو کہ جو چاہے کرے۔ کہا جاتا ہے: ’’أَتْرَفَتْهُ النِّعْمَةُ ‘‘ اسے نعمت نے سرکش اور باغی بنا دیا۔ ’’تَدْمِيْرًا ‘‘ تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’بری طرح برباد کرنا۔‘‘ 2۔ یہ پچھلی آیت کے مفہوم ہی کی تکمیل ہے کہ اللہ تعالیٰ حجت تمام کیے بغیر عذاب نہیں دیتا۔ فرمایا، ہم اس بستی کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں۔ ’’ اَمَرْنَا ‘‘ کا مفعول محذوف ہے، وہ یا تو ’’بِأَمْرٍ‘‘ ہے، یعنی ہم انھیں کوئی حکم دیتے ہیں، یا ’’بِالْإِيْمَانِ وَالْعَمَلِ الصَّالِحِ‘‘ ہے، یعنی ہم اس بستی کے رسول یا دوسرے مصلح لوگوں کے ذریعے سے اس کے خوش حال لوگوں کو ایمان اور عمل صالح کا حکم دیتے ہیں۔ ’’ فَفَسَقُوْا ‘‘ تو وہ اس حکم کو یا ایمان اور عمل صالح کے حکم کو نہیں مانتے، بلکہ ملک بھر میں فسق و فجور بپا کر دیتے ہیں تو ان کا عذاب کا حق دار ہونا ثابت ہو جاتا ہے، تو پھر ہم صرف خوش حال لوگوں ہی کو نہیں بلکہ ان کے پیچھے چلنے والے ضعفاء کو بھی بلکہ بستی کی عمارتوں کو بھی بری طرح برباد کر دیتے ہیں۔ ضعفاء کی ہلاکت کے سبب کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۶۶، ۱۶۷)، احزاب (۶۴ تا ۶۸) اور اعراف (۳۸، ۳۹) اور بستی کی بربادی لفظ ’’ قَرْيَةً ‘‘ سے ظاہر ہو رہی ہے۔ 3۔ بعض مفسرین نے ’’ فَفَسَقُوْا فِيْهَا ‘‘ کی مناسبت سے ’’اَمَرْنَا ‘‘ کا محذوف مفعول ’’بِالْفِسْقِ‘‘ نکالا ہے، یعنی جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو فسق کا حکم دیتے ہیں…۔ مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو نیکی کا حکم دیتا ہے اور نافرمانی سے منع کرتا ہے، خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ ﴾ [ الأعراف : ۲۸ ] ’’کہہ دیجیے بے شک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ نحل (۹۰) اور سبا (۳۴، ۳۵) ہاں اگر یہ تاویل کی جائے تو الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شرعی حکم تو نیکی ہی کا ہوتا ہے مگر کونی حکم (جس کے تحت کائنات چل رہی ہے، کافر کفر کر رہے ہیں، ظالم ظلم کر رہے ہیں، مظلوموں پر ظلم ہو رہا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں ہیں) ہر قسم کا ہو سکتا ہے، اگرچہ یہ کونی حکم بھی شرعی احکام کی نافرمانی اور اللہ اور اس کے رسول کو بھلا دینے کے نتیجے ہی میں ہوتا ہے، چنانچہ ان نافرمانوں کی رسی دراز کر دی جاتی ہے اور دنیا کی نعمتوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے جاتے ہیں کہ جتنی چاہو نافرمانی کر لو، پھر جب قرار داد جرم مکمل ہو جاتی ہے تو اللہ کا عذاب آ جاتا ہے۔ (دیکھیے انعام : ۴۲ تا ۴۵) بعض نے ’’ اَمَرْنَا ‘‘ کا معنی ’’أَكْثَرْنَا‘‘ بھی کیا ہے کہ ہم اس کے ’’مترفین‘‘ کو بہت بڑھا دیتے ہیں تو وہ فخر میں آ کر نافرمانی پر اتر آتے ہیں۔ ان تینوں معنوں میں سے پہلا معنی زیادہ صحیح ہے جو حاشیہ نمبر (۲) میں ذکر ہوا، اگرچہ دوسرے معنوں کی بھی گنجائش ہے۔