وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا
ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے (١) اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پائے گا۔
1۔ وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىِٕرَهٗ ....: ’’طَائِرٌ‘‘ کا لفظی معنی اڑنے والا ہے۔ مراد کسی بھی چیز کا وہ جز ہے جو انسان کے حصے میں آئے، گویا وہ اڑ کر اس کے پاس آتا ہے۔ شگون لینے یا قرعہ ڈالنے کی صورت میں اس کے حق میں نکلنے والا نتیجہ خواہ اچھا ہو یا برا۔ انسان کے حصے میں آنے والی چیز یا اس کا عمل جو اس نے کرنا ہے اور اس کا رزق جو اسے ملنا ہے، سب پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و تمیز دے کر یہ اختیار دیا ہے کہ وہ سیدھے راستے پر چلے یا غلط راستے پر، نیک عمل کرے یا بد، پھر بھی اس نے جو کچھ کرنا ہے، خواہ اس کے اختیار میں ہے، جیسے نیکی یا بدی اور خواہ اس کے اختیار میں نہیں ہے، جیسے اس کی عمر، اسے پیش آنے والے اچھے یا برے حوادث، سب اللہ تعالیٰ کو پہلے سے معلوم ہے اور وہ ہر انسان نے کرنا ہی کرنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم اور اندازہ (تقدیر) غلط نہیں ہو سکتے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ ہر انسان کے نصیب اور حصے میں جو کچھ آنے والا ہے وہ ہم نے اس کی گردن کے ساتھ لازم کر دیا ہے، جیسے گردن میں پڑا ہوا طوق یا ہار۔ جو چیز کسی کو لازم کر دی جائے اور وہ اس سے جدا نہ ہو سکے اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ’’ أَلْزَمْتُهُ فِيْ عُنُقِهِ ‘‘ کہ میں نے اسے اس کی گردن میں چپکا دیا ہے۔ 2۔ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ....: آیت کا پہلا حصہ تقدیر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور یہ حصہ انسان کے ان اعمال سے متعلق ہے جو اس نے دنیا میں کیے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے تحریر کرنے کے لیے فرشتے مقرر فرما رکھے ہیں۔ دیکھیے سورۂ قٓ (۱۶ تا ۱۸) اور انفطار (۱۰ تا ۱۲) ان کی تیار کردہ کتابِ اعمال قیامت کے دن ہر انسان کے سامنے آ جائے گی، ایسی صورت میں کہ خودبخود کھلی ہو گی، آدمی خواہ پڑھا ہوا ہے یا ان پڑھ، ہر ایک کو حکم ہو گا کہ اپنے اعمال کی کتاب پڑھ لے اور ہر شخص اسے پڑھ لے گا، گویا اس کی زندگی کی مکمل تصویر اس کے سامنے آ جائے گی، جسے وہ پہلے بھی بہانہ سازیوں کے باوجود خوب جانتا ہو گا۔ (دیکھیے قیامہ : ۱۳ تا ۱۵) اس کتابِ اعمال میں اس کا کوئی چھوٹا یا بڑا عمل درج ہونے سے رہ نہیں جائے گا۔ دیکھیے سورۂ کہف (۴۹)۔ 3۔ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا : اس کی ترکیب یہ کی جاتی ہے ’’ كَفٰى ‘‘ فعل، باء زائدہ، ’’نَفْسِكَ‘‘ فاعل، ’’ حَسِيْبًا ‘‘ تمیز اور ’’ عَلَيْكَ ‘‘ اس کے متعلق ہے۔ یہ ترکیب درست ہے، مگر اس میں کمی صرف یہ ہے کہ باء کو محض زائدہ کہہ دیا گیا ہے، حالانکہ قرآن مجید میں ایک حرف بھی بے مقصد و زائد نہیں، چنانچہ شنقیطی، طنطاوی اور کئی مفسرین نے صراحت فرمائی ہے کہ یہ ’’ كَفٰى ‘‘ کی تاکید کے لیے ہے، یعنی آج تو خود اپنے آپ پر بطور محاسب بہت کافی ہے۔ یہی بات ’’ وَ كَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا ‘‘ (بنی اسرائیل : ۶۵) میں بھی ملحوظ رکھیں۔ 4۔ نفس کے بطور محاسب کافی ہونے میں وہ صورت بھی شامل ہے کہ جب انسان اس کتابِ اعمال کو جھٹلا دے گا، پھر اللہ کے حکم سے زبان پر مہر لگ جائے گی اور خود انسان کے جسم کا ہر حصہ اپنے اعمال کی شہادت دے گا۔ اب خود اپنے جسم سے زیادہ کافی محاسب کون ہوسکتا ہے۔ دیکھیے سورۂ یس (۶۵)، حم السجدہ (۱۹ تا ۲۳) اور سورۂ مجادلہ (۱۸)۔