وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا
ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں، رات کی نشانی کو تو ہم نے بے نور کردیا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے تاکہ تم لوگ اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو اور اس لئے بھی کہ برسوں کا شمار اور حساب معلوم کرسکو (١) اور ہر چیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان فرما دیا ہے (٢)۔
1۔ وَ جَعَلْنَا الَّيْلَ وَ النَّهَارَ اٰيَتَيْنِ : ان دونوں کو نشانیاں اس لیے قرار دیا کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے وجود کا، اس کی کمال کاریگری اور قدرت کا اور اس اکیلے کے عبادت کا حق دار ہونے کا پتا چلتا ہے۔ رات اور دن کو بطور دلیل اور نعمت کے قرآن نے متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے۔ دیکھیے سورۂ حم السجدہ (۳۷)، یٰسٓ(۳۷)، یونس (۶)، آل عمران (۱۹۰)، بقرہ ( ۱۶۴)، فرقان ( ۶۲)، سورۂ زمر (۵) اور دیگر آیات۔ 2۔ فَمَحَوْنَا اٰيَةَ الَّيْلِ ....: ’’ مَحَا يَمْحُوْ مَحْوًا ‘‘ (ن) کسی چیز کا نشان ختم کر دینا، مٹا دینا، یعنی رات اور دن جس طرح نشانیاں ہیں اسی طرح ان کا وجود اور ان کا کم یا زیادہ ہوتے ہوئے مسلسل روزانہ ایک دوسرے کے پیچھے آنا بھی نعمت ہیں، کیونکہ رات کی تاریکی اور خاموشی انسان کے سکون، راحت اور نیند کے لیے ضروری ہے اور دن کی روشنی ہر کام کے لیے اور اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ اللہ کا انعام ہے کہ آرام کے لیے رات بنا دی، پھر اسے مٹا کر کام کے لیے دن بنا دیا، اگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ رات یا ہمیشہ دن بنا دیتا تو زندگی کا سلسلہ کس طرح قائم رہ سکتا تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ قصص (۷۱ تا ۷۳)، سورۂ نبا (۹ تا ۱۱) اور سورۂ روم (۲۳)۔ 3۔ وَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَ الْحِسَابَ : یعنی اگر نہ دن رات ہوتے اور نہ رات اور دن کے بتدریج روزانہ چھوٹے یا بڑے ہونے کا سلسلہ ہوتا، نہ چاند کے ہلال سے بدر اور بدر سے ہلال بننے کی منزلیں ہوتیں تو ہمیشہ ایک جیسا موسم رہتا اور سال اور مہینوں کا کچھ پتا نہ چلتا، نہ وقت کا وجود ہوتا جس پر کئی دینی معاملات، مثلاً نماز، روزے، زکوٰۃ، حج، عید، عدت وغیرہ کا اور تمام دنیوی معاملات کا انحصار ہے۔ 4۔ وَ كُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِيْلًا: یعنی ہر وہ چیز جس میں تمھاری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے، اسے ہم نے خوب کھول کر بیان کر دیا ہے۔ ’’ تَفْصِيْلًا ‘‘ مصدر تاکید کے لیے ہے، اس لیے معنی کیا ہے خوب کھول کر بیان کرنا۔ مزید دیکھیے سورۂ انعام (۳۸) اور سورۂ نحل (۸۹)۔ 5۔ ان آیات (۱۰ تا ۱۳) کی باہمی مناسبت ابن عاشور اور شاہ عبد القادر; کے کلام کو ملا کر یہ ہے کہ آیت (۱۰) میں جب کفار کے لیے عذاب الیم تیار کرنے کا ذکر فرمایا تو آیت (۱۱) میں کفار کے اس عناد پر مبنی مطالبے کی وجہ بتائی جو وہ مسلمانوں سے کرتے تھے کہ وہ عذاب الیم ابھی لاؤ، چلو ہم پر آسمان گرا دو، اللہ تعالیٰ ہم پر پتھروں کی بارش برسا دے۔ فرمایا انسان جلد بازی سے بغیر سوچے سمجھے اپنے نقصان کی دعا کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت اور خود انسان کی مصلحت کا تقاضا اس کی بددعا کو قبول نہ کرنا ہے۔ (ابن عاشور) آیت (۱۳) میں بتایا کہ کفار کے جلد عذاب کے مطالبے سے یا مسلمانوں کے کفار کو فوراً برباد کرنے کی بددعا سے کچھ حاصل نہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’گھبرانے سے فائدہ نہیں، ہر چیز کا وقت اور اندازہ مقرر ہے، جیسے رات اور دن، کسی کے گھبرانے سے رات کم نہیں ہو جاتی، اپنے وقت پر آپ صبح ہو جاتی ہے۔‘‘ (موضح)