الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
حج کے مہینے مقرر ہیں (١) اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے (١) تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے (٢) اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔
1۔اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ:عمرہ سال میں کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے، مگر حج مقررہ وقت ہی میں کیا جا سکتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’’حج کے مہینے جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائے ہیں شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہیں۔‘‘[ بخاری، الحج، باب قول اللہ تعالٰی:﴿ذلک لمن لم یکن أہلہ....﴾:۱۵۷۲] اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’’اس سے مراد شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔‘‘ [ بخاری، قبل ح:۱۵۶۰۔ طبری:2؍267، ح:۳۵۲۲۔ مستدرک حاکم:2؍303،ح:۳۰۹۲ و صححہ ووافقہ الذھبی] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں کے سوا دوسرے مہینوں میں نہ باندھا جائے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’سنت یہ ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں ہی میں باندھا جائے۔‘‘ [ ابن خزیمۃ، باب النہی عن الإحرام:4؍162، ح:۲۵۹۶] ابن کثیر نے اسے صحیح کہا ہے اور یہ مرفوع کے حکم میں ہے۔ 2۔فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ:حج کو اپنے آپ پر فرض کرنا یہ ہے کہ حج کی نیت کے ساتھ احرام باندھ لے اور زبان سے [لَبَّیْکَ بِالْحَجِّ] اور [لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ....] مکمل تلبیہ کہے۔ (ابن کثیر) 3۔ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ:یعنی حج میں یہ سب باتیں حرام ہیں۔”رَفَث“(شہوانی فعل) سے جماع اور تمام وہ چیزیں مراد ہیں جو جماع کی طرف مائل کرنے والی ہوں۔ ”فُسُوْق“ (نافرمانی) کا لفظ ہر گناہ کو شامل ہے اور’’جِدَال‘‘سے لڑائی جھگڑا مراد ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’جس نے اس گھر کا حج کیا اور(دوران حج میں) رفث و فسوق نہیں کیا وہ اس دن کی طرح (گناہوں سے پاک) لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔‘‘ [ بخاری، المحصر و جزاء الصید، باب قول اللہ عزوجل:﴿فلا رفث﴾:۱۸۱۹] 4۔ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى:تقویٰ کا لغوی معنی بچنا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’’اہل یمن حج کرتے تو زاد راہ نہیں لاتے تھے اور کہتے تھے، ہم توکل والے ہیں، پھر جب مکہ میں آتے تو لوگوں سے مانگتے، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔‘‘ [بخاری، الحج، باب قول اللّٰہ تعالٰی:﴿و تزودوا فإن.... ﴾:۱۵۲۳] ایسا توکل اللہ پر نہیں بلکہ درحقیقت لوگوں کی جیبوں پر ہے۔ (تلبیس ابلیس) فرمایا زاد راہ لو، اس کا فائدہ یہ ہے کہ سوال سے بچ جاؤ گے۔ ظاہری زاد کے ساتھ دلی زاد بھی ضروری ہے، جس کی بہترین صورت تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا ہے، آیت سے دونوں معنی لیے جا سکتے ہیں اور دونوں مراد ہیں۔