سورة النحل - آیت 119

ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جو کوئی جہالت سے برے عمل کرلے پھر توبہ کرلے اور اصلاح بھی کرلے تو پھر آپ کا رب بلاشک و شبہ بڑی بخشش کرنے والا اور نہایت ہی مہربان ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْٓءَ ....: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام گناہ گاروں کو، وہ یہودی ہوں یا عیسائی یا مشرک یا مسلمان، سب کو توبہ اور اصلاح کے بعد بے انتہا مغفرت اور رحمت کی نوید سنائی ہے۔ یاد رہے کہ یہاں جہالت کا معنی لاعلمی نہیں بلکہ بے وقوفی اور اکھڑ پن ہے، جو آدمی سے بے عقلی کے کاموں کا ارتکاب کرواتا ہے، جیسا کہ گھر سے نکلنے کی لمبی دعا میں ہے : (( اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ أَنْ… أَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيَّ )) ’’اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ… میں کسی پر جہالت کروں یا کوئی مجھ پر جہالت کرے۔‘‘ [ أبوداؤد، الأدب، باب ما یقول إذا خرج من بیتہ : ۵۰۹۴۔ ابن ماجہ : ۳۸۸۴، و صححہ الألباني ] اور عمرو بن کلثوم نے کہا: أَلَا لَا يَجْهَلَنْ أَحَدٌ عَلَيْنَا فَنَجْهَلْ فَوْقَ جَهْلِ الْجَاهِلِيْنَا ’’خبردار! ہم پر کوئی جہالت کا ارتکاب ہرگز نہ کرے، ورنہ ہم جاہلوں کی جہالت سے بڑھ کر جہالت کریں گے۔‘‘ اس حدیث اور شعر سے جہل کا مفہوم واضح ہوتا ہے جو یہاں مراد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر گناہ لاعلمی سے ہو یا جان بوجھ کر، ہوتا ہی بے وقوفی اور جہالت سے ہے، اسلام سے پہلے والے زمانے کو اسی لیے زمانۂ جاہلیت کہتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ انعام (۵۴)، نساء (۱۸، ۱۹) اور سورۂ فرقان (۶۳)۔