وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظَالِمُونَ
ان کے پاس انہی میں سے رسول پہنچا پھر بھی انہوں نے اسے جھٹلایا پس انھیں عذاب نے آدبوچا (١) اور وہ تھے ہی ظالم۔
وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ ....: یہ ان احسانات میں سے ایک بہت بڑا احسان تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انھی میں سے ایک رسول ان کی طرف بھیجا۔ غالباً اسی لفظ کو بنیاد بنا کر اکثر مفسرین نے اس بستی سے مراد مکہ معظمہ لیا ہے، ورنہ اس کی تعیین کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ پہلے رسولوں کی کوئی بستی بھی مراد ہو سکتی ہے اور ان کی طرف آنے والا رسول بھی۔ البتہ اس سے مکہ بالاولیٰ مراد ہے۔ یہاں جس بھوک اور خوف کا لباس چکھانے کا ذکر ہے اس کی تفصیل عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں (کے ایمان لانے) سے گریز کو دیکھا تو آپ نے عرض کیا : (( اَللّٰهُمَّ سَبْعًا كَسَبْعِ يُوْسُفَ )) ’’اے اللہ! یوسف( علیہ السلام ) کے سات سالوں جیسے سات سال مسلط فرما۔‘‘ تو انھیں ایسی قحط سالی نے آپکڑا جس نے ہر چیز کو تباہ و برباد کر دیا، یہاں تک کہ وہ چمڑے، مردار اور لاشیں بھی کھا گئے، بھوک کی وہ شدت تھی کہ ان میں سے کوئی آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے دھواں نظر آتا۔ [ بخاری، الاستسقاء، باب دعاء النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : اجعلھا سنین....: ۱۰۰۷ ] ادھر مسلمانوں کے ساتھ ہر وقت حالت جنگ کی وجہ سے باہر سے آنے والے لوگوں کی آمد بھی رک گئی اور خوف کی یہ حالت تھی کہ وہ ہر وقت مکہ میں اور مکہ سے باہر بھی مسلمانوں کے حملے سے خوف زدہ رہتے تھے۔ بہرحال شوکانی اور کئی مفسرین کہتے ہیں کہ ان آیات میں کسی متعین بستی کا ذکر نہیں ہے، محض ایک تباہ شدہ بستی کی مثال دے کر اہل مکہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہماری نعمتوں خصوصاً رسول بھیجنے کی ناشکری کی تو تمھارے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا جائے گا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ایسے بہت سے شہر ہوتے ہیں، پر احوال فرمایا مکے کا۔‘‘ (موضح)